مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1506
وعن ابن عباس : أن النبي صلى الله عليه و سلم دخل على أعرابي يعوده وكان إذا دخل على مريض يعوده قال : لا بأس طهور إن شاء الله فقال له : لا بأس طهور إن شاء الله . قال : كلا بل حمى تفور على شيخ كبير تزيره القبور . فقال : فنعم إذن . رواه البخاري
اپنے سے کمتر اور ادنیٰ مریض کی بھی عیادت کرنی چاہئے
اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ (ایک مرتبہ) ایک اعرابی (گنوار) کے پاس اس کی بیماری کا حال پوچھنے کے لئے تشریف لے گئے آنحضرت ﷺ (کا طریقہ یہ تھا کہ) جب آپ کسی کے پاس عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تو اس سے فرماتے کہ کوئی ڈر نہیں (یعنی بیماری سے غم نہ کھاؤ اس لئے کہ) یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے اگر اللہ چاہے چناچہ آپ ﷺ نے (اس وقت) اس دہقانی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی ڈر نہیں یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے اگر اللہ چاہے دہقانی نے کہا کہ ہرگز نہیں، بلکہ یہ بخار ہے جو بڑے بوڑھے پر چڑھ آیا ہے اور اسے قبر کی زیارت کرا دے گا (یعنی موت کی آغوش میں پھینک دے گا) آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اچھا (اگر تم یہی سمجھتے ہو تو) یوں ہی سہی۔ (بخاری)

تشریح
یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے کمال تواضع اور مساوات عمل کی مظہر ہے کہ آپ ایک دہقانی کی عیادت کے لئے اس کے پاس تشریف لے گئے، گویا آپ ﷺ نے اپنے اس عمل مبارک سے امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ صرف انہیں لوگوں کی مزاج پرسی کے لئے نہیں جانا چاہئے جو اپنے سے اونچے یا ہم مرتبہ ہوں بلکہ ان لوگوں کی بھی عیادت کرنی چاہئے جو کسی بھی حیثیت سے اپنے سے کمتر اور ادنیٰ درجے کے ہوں۔ اچھا (اگر تم یہی سمجھتے ہو تو) یوں ہی سہی یعنی آنحضرت ﷺ نے اس دہقانی سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ میں تو تمہارے سامنے بیماری کا ثواب بیان کر رہا ہوں مگر تم اس نعمت کا انکار کر رہے ہو اگر تمہارا خیال یہی ہے تو پھر جان لو کہ اس طرح ہوگا جس طرح تم کہہ رہے ہو کیونکہ کفران نعمت کرنے والے کی سزا ہی یہ ہے کہ وہ اس نعمت سے محروم ہوجائے۔ دہقانی کے اس رویہ اور اس کی اس بات کی بناء پر احتمال ہوسکتا ہے کہ وہ کافر ہو مگر علماء نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا مگر چونکہ بیوقوف اور ناسمجھ اجڈ گنوار تھا اسی لئے بیماری کی تکلیف اور شدت درد سے بےتاب و مضطرب ہو کر اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکال بیٹھا۔
Top