Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1499 - 1573)
Select Hadith
1499
1500
1501
1502
1503
1504
1505
1506
1507
1508
1509
1510
1511
1512
1513
1514
1515
1516
1517
1518
1519
1520
1521
1522
1523
1524
1525
1526
1527
1528
1529
1530
1531
1532
1533
1534
1535
1536
1537
1538
1539
1540
1541
1542
1543
1544
1545
1546
1547
1548
1549
1550
1551
1552
1553
1554
1555
1556
1557
1558
1559
1560
1561
1562
1563
1564
1565
1566
1567
1568
1569
1570
1571
1572
1573
مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1886
ایک سبق آموز حکایت :
ایک سبق اموز حکایت حدیث بالا کی روشنی میں جو یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ حلال مال اچھی جگہ ہی خرچ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سبق آموز حکایت سنیے شیخ علی متقی عارف باللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایک متقی و صالح شخص کسب معاش کرتے تھے اور ان کا معمول تھا کہ جو کچھ کماتے پہلے تو اس میں ایک تہائی اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے پھر ایک تہائی اپنی ضروریات پر صرف کرتے اور ایک تہائی اپنی کسب معاش کے ذریعے میں لگا دیتے ایک دن ان کے پاس ایک دنیا دار شخص آیا اور کہنے لگا کہ شیخ! میں چاہتا ہوں کہ کچھ مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں، لہٰذا آپ مجھے کسی مستحق کا پتہ دیجیے انہوں نے کہا پہلے تو حلال مال حاصل کرو اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو، وہ مستحق شخص ہی کے پاس پہنچے گا۔ دنیا دار شخص نے اسے مبالغہ پر محمول کیا، شیخ نے کہا اچھا تم جاؤ تمہیں جو شخص بھی ایسا ملے جس کے تمہارے دل میں جذبہ ترحم پیدا ہو اسے صدقہ کا مال دے دینا، چناچہ وہ شخص جب شیخ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس نے ایک بوڑھے اندھے کو دیکھا جس کے لئے اس کے دل میں جذبہ ترحم پیدا ہوا اور یہ سمجھ کر کہ صدقہ کے مال کا اس بےچارے سے زیادہ کون مستحق ہوسکتا ہے؟ اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اسے کچھ حصہ خیرات کردیا۔ جب دوسرے دن وہ ضعیف و نابینا شخص کے پاس سے گزرا تو اس نے سنا کہ وہ اپنے پاس کھڑے ہوئے ایک دوسرے شخص سے کل کا واقعہ بیان کر رہا تھا کہ کل میرے پاس سے ایک مالدار شخص گزرا اس نے مجھ پر ترس کھا کر اتنا مال مجھے دیا جسے میں نے فلاں بدکار شخص کے ساتھ شراب نوشی میں لٹا دیا۔ وہ دنیا دار یہ سنتے ہی شیخ کے پاس آیا اور ان سے پورا ماجرا بیان کیا، شیخ نے یہ واقعہ سن کر اپنی کمائی میں سے ایک درہم اسے دیا اور کہا کہ اسے رکھو اور یہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہاری نظر جس پر پڑے اسے یہ درہم بطور خیرات دے دینا چناچہ وہ شیخ کا دیا ہوا درہم لے کر گھر سے باہر نکلا تو اس کی نظر سب سے پہلے ایک اچھے شخص پر پڑی جو بظاہر کھاتا پیتا معلوم ہو رہا تھا پہلے تو وہ دیتے ہوئے جھجکا مگر چونکہ شیخ کا حکم تھا اس لئے مجبورا وہ درہم اس شخص کو دے دیا۔ اس شخص نے وہ درہم لے لیا اور اپنے پیچھے مڑ کر چل دیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ مالدار بھی چلا اس نے دیکھا وہ شخص ایک کھنڈر میں داخل ہوا ور وہاں سے دوسری طرف نکل کر شہر راہ پکڑی، مالدار بھی اس کے پیچھے کھنڈر میں داخل ہوا وہاں اسے کوئی چیز نظر نہ آئی البتہ اس نے ایک مرا ہوا کبوتر دیکھا وہ پھر اس شخص کے پیچھے پیچھے ہو لیا، پھر اسے قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ تم کون ہو؟ اور کس حال میں ہو؟ اس نے کہا کہ میں ایک غریب انسان ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں وہ بہت بھوکے تھے جب مجھ سے ان کی بھوک کی شدت نہ دیکھی گئی اور انتہائی اضطراب و پریشانی کے عالم میں میں ان کے لئے کچھ انتظام کرنے کی خاطر گھر سے نکل کھڑا ہوا تو میں سرگرداں پھر رہا تھا کہ مجھے یہ مرا ہوا کبوتر نظر آیا مرتا کیا نہ کرتا؟ میں نے یہ کبوتر اٹھا لیا اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چلا تاکہ اس کے ذریعے بھوک سے بلکتے بچوں کو کچھ تسکین دلاؤں مگر جب اللہ نے تمہارے ذریعے یہ درہم مجھے عنایت فرما دیا تو یہ کبوتر جہاں سے اٹھایا تھا وہیں پھینک دیا۔ اب اس مالدار کی آنکھ کھلی اور اسے معلوم ہوا کہ شیخ کا وہ قول مبالغہ پر محمول نہیں تھا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ حلال مال اچھی جگہ اور حرام مال بری جگہ خرچ ہوتا ہے۔
Top