مشکوٰۃ المصابیح - جنگ کرنے کا بیان - حدیث نمبر 5323
وعن نافع بن عتبة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تغزون جزيرة العرب فيفتحها الله ثم فارس فيفتحها الله ثم تغزون الروم فيفتحها الله ثم تغزون الدجال فيفتحه الله . رواه مسلم
فتح روم وفارس کی پیش گوئی
حضرت نافع بن عتبہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم لوگ میرے بعد جزیرۃ العرب سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں فتح کرائے گا پھر تم فارس کی مملکت سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں فتح کرائے گا پھر تم روم کی مملکت سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں فتح کرائے اور پھر آخری زمانہ میں تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ اس پر تمہیں فتح عطا فرمائے گا۔ (مسلم)

تشریح
عالم عرب کا وہ خطہ جس کو جزیرۃ العرب سے تعبیر کیا جاتا ہے، قدیم جغرافیہ دانوں کے مطابق نجد حجاز جس کے دو مقدس شہر مکہ اور مدینہ ہیں یمامہ، یمن اور عروض پر مشتمل ہے اس خطہ کے جنوب میں بحر عرب، مشرق میں خلیج عربی اور خلیج یمان اور مغرب میں بحراحمر ہے، اس کے شمال میں دریائے فرات اس طرح بہتا ہے اس خطے کے اس تنہا شمالی خشکی کے سرے کو بہت حد تک کاٹ دیتا ہے اور اس وجہ سے یہ خطہ گویا مجازا جزیرۃ العرب کہلاتا ہے ورنہ اصل کے اعتبار سے یہ خطہ جزیرہ نمائے عرب سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ویسے اہل عرب جزیرہ نما کو بھی توسعا جزیرہ کہہ دیا کرتے ہیں۔ جزیرۃ العرب سے جنگ کرو گے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت میری زندگی میں جزیرۃ العرب کے جو علاقے اسلام کی روشنی سے محروم رہ گئے ہیں۔ میرے بعد ان کی تاریکی بھی ختم ہوجائے گی، کچھ علاقے تو تبلیغ و اشاعت اسلام کے ذریعے کفر کے اندھیرے سے نکل آئیں گے اور باقی علاقے کے لوگوں سے تم جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ذریعے فتح پاؤ گے اس طرح ہر چار طرف اسلام کا جھنڈا سر بلند ہوجائے گا اور پورے جزیرۃ العرب میں کوئی ایک کافر بھی باقی نہیں بچے گا۔ دجال سے جنگ کرو گے الخ کا مطلب یہ ہے کہ دجال جب ظاہر ہوگا تو اپنی طلسماتی طاقت اور مکر و فریب کے ذریعے بڑی اودھم مچائے گا اور کچھ ملکوں اور علاقوں پر قابو پالے گا لیکن جب تم اس کے مقابلے پر نکل کھڑے ہو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو مقہور و مغلوب کر دے گا اور جو ملک و علاقہ اس کے قبضے میں چلا گیا ہوگا وہ دوبارہ تسلط و قبضہ میں آجائے گا، نیز وہ دجال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے گا جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے اتریں گے۔ واضح رہے کہ اس ارشاد میں حضور ﷺ کا خطاب تو صحابہ سے تھا مگر اصل روئے سخن امت کی طرف تھا۔
Top