مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 3765
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : للغازي أجره وللجاعل أجره وأجر الغازي . رواه أبو داود
جاعل کو جہاد کا دوہرا ثواب ملتا ہے
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جہاد کرنے والے کو اس کا اپنا اجر ملتا ہے یعنی مجاہد کے لئے جہاد کا جو مخصوص اجر ہے وہ اس کو پورا ملتا ہے اور جاعل (یعنی مال دینے والے کو) اس کا اپنا اجر بھی ملتا ہے اور جہاد کرنے والے کا بھی۔ (ابو داؤد)

تشریح
جاعل اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو کسی غازی کو مال دے اور اس کی مدد کرے تاکہ وہ جہاد کرے لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جاعل کو دوہرا ثواب ملتا ہے ایک ثواب تو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا اور دوسرا ثواب اس بات کا ملتا ہے کہ وہ اس غازی کے جہاد کرنے کا سبب و ذریعہ بنا ہے اس اعتبار سے جعل سے مراد غازی کی مالی مدد کرنا اور اس کے لئے جہاد کا سامان و ضرورت مہیا کرنا چناچہ اس عمل یعنی جعل کے جائز ہونے اور اس کی فضیلت کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور تمام ہی علماء اس پر متفق ہیں۔ لیکن ابن ملک کہتے ہیں کہ جاعل سے مراد ہے وہ شخص جو کسی غازی کو اجرت دے کر جہاد کرائے حنفی علماء کے نزدیک یہ بھی جائز ہے اور اس صورت میں غازی کو جہاد میں اس کی جدوجہد اور مشقت کا ثواب ملے گا اور جاعل یعنی اجرت دینے والے کو دوہرا ثواب ملے گا ایک ثواب تو مال دینے کا او دوسرا ثواب اس غازی کے جہاد کرنے کا سبب و ذریعہ بننے کا مگر حضرت امام شافعی کے مسلک میں یہ یعنی کسی شخص کا اجرت دے کر جہاد کرانا منع ہے چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی غازی نے کسی شخص سے اسی طرح کی اجرت لے لی ہے تو اس کو واپس کردینا واجب ہے۔
Top