مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 3802
وعن ابن عباس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم عبدا مأمورا ما اختصنا دون الناس بشيء إلا بثلاث : أمرنا أن نسبغ الوضوء وأن لا نأكل الصدقة وأن لا ننزي حمارا على فرس . رواه الترمذي والنسائي
اہل بیت رسول ﷺ کو تین مخصوص احکام
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایک مامور پر بندے تھے آپ ﷺ نے ہم کو ( یعنی اپنے اہل بیت کو) دوسرے لوگوں سے الگ کر کے تین باتوں کے علاوں اور کسی بات کا مخصوص طور پر حکم نہیں دیا اور وہ ( تین باتیں جن کا خاص طور پر اہل بیت کو حکم دیا) یہ ہیں کہ ١ ہم وضو کو پورا کریں ٢ ہم صدقہ کا مال نہ کھائیں ٣ ہم گھوڑیوں پر گدھے نہ چھوڑیں۔ ( ترمذی و نسائی)

تشریح
رسول کریم ﷺ ایک مامور بندے تھے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ کی طرف سے جس بات کا حکم ہوتا تھا وہی کرتے تھے اپنی طرف سے نہ کوئی قانون بناتے تھے اور نہ اپنی خواہش نفس کے تحت کوئی حکم دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کسی بھی طبقہ و جماعت یا کسی بھی شخص و خاندان کے لئے خواہ وہ آپ کے نزدیک کتنا ہی محبوب کیوں نہ ہو الگ سے کسی چیز کا حکم دے کر اس کو دوسرے لوگوں پر ترجیح نہیں دیتے تھے، یہاں تک کہ اہل بیت جو اخص واقرب تھے ان کے لئے بھی احکام میں کسی امتیاز وخصوصیت کو روا نہیں رکھتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عباس نے وضاحت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہم اہل بیت کو بھی کسی چیز کا مخصوص طور پر حکم نہیں دیا ہاں تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اہل بیت کو بھی خصوصی حکم دیا گیا۔ گھوڑیوں ( سے خچر پیدا کرنے کے لئے) پر گدھے چھوڑنے سے اس لئے منع فرمایا کہ اول تو اس سے نسل کو قطع کرنا لازم آتا ہے دوسرے یہ ایک اچھی چیز کے بدلے ایک گھٹیا چیز چاہنا ہے کیونکہ گھوڑے کے مقابلہ میں خچر ایک ادنیٰ جانور ہے جو نہ گھوڑے کی طرح کار آمد ہوتا ہے اور نہ جہاد وغیرہ کے کام آتا ہے، لہٰذا ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اس موقع پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ صدقے کا مال کھانے کا مسئلہ تو بالکل صاف ہے کہ اس سے صرف اہل بیت کو منع کیا گیا ہے باقی اس امت اس کے حکم میں داخل نہیں ہے لیکن باقی دو حکم ( یعنی وضور کو پورا کرنا اور گھوڑیوں پر گدھے نہ چھوڑنا) تو ایسے ہیں جن میں پوری امت داخل ہے کہ سارے ہی مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وضو کو پورا کرو ( یعنی اچھی طرح) کریں اور اپنی گھوڑیوں پر گدھے نہ چھوڑیں پھر ان دونوں چیزوں کو صرف اہل بیت کے ساتھ مخصوص کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس سے مراد ان دونوں چیزوں کو اہل بیت پر واجب و لازم کرنا ہے، یا یہ کہ ان احکام کو اہل بیت کے حق میں زیادہ سے زیادہ اہمیت اور تاکید کے ساتھ نافذ کرنا مقصد ہے۔ یہ حدیث اپنے مفہوم کے اعتبار سے شیعوں کے اس نظریہ کی واضح تردید کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے اہل بیت کو کچھ ایسے مخصوص علوم سے نوازا تھا جن میں باقی امت کا کوئی حصہ نہیں تھا! اسی طرح وہ حدیث بھی شیعوں کے اس نظریہ کی تردید میں ایک مضبوط دلیل ہے۔ جو پیچھے گزر چکی ہے۔ اور جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے۔ (ہل عندکم شیئی لیس فی القرآن فقال والذی لفق الحبۃ وبرأ النسمۃ ما عندنا الا ما فی القرآن الا فہما یعطی الرجل فی کتابہ وما فی الصحیفۃ۔ الحدیث۔ ( جب حضرت علی ؓ سے یہ پوچھا گیا کہ) کیا آپ کے پاس ایسا کوئی علم ہے جو قرآن میں موجود نہیں ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے دانہ کو چیرا اور جان کو پیدا کیا قرآن میں جو علوم ہیں ان کے علاوہ ہمارے پاس اور کچھ نہیں ہے ہاں مجھے بیشک کتاب اللہ کا وہ فہم ملا جو کسی انسان کو عطا ہوتا ہے ( اور میرے پاس کچھ) وہ چیزیں ( مسائل) ہیں جو اس صحیفہ میں لکھے ہوئے ہیں۔ آخر حدیث تک۔
Top