مشکوٰۃ المصابیح - حدود کا بیان - حدیث نمبر 3524
وعن عمر رضي الله عنه قال : إن الله بعث محمدا وأنزل عليه الكتاب فكان مما أنزل الله تعالى آية الرجم رجم رسول الله صلى الله عليه و سلم ورجمنا بعده والرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو كان الحبل أو الاعتراف
محصن زانی کی سزا
اور حضرت عمر کہتے ہیں کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر اپنی کتاب نازل کی چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں جو کچھ نازل کیا ہے اس میں آیت رجم بھی ہے۔ اور کتاب اللہ میں اس شخص کو رجم کرنے کا حکم ثابت ہے جو محصن ہونے کے باوجود زنا کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اور یہ رجم کی سزا اس وقت دی جائے گی، جب کہ زنا کا جرم گواہوں کے ذریعہ یا حمل کے ذریعہ اور یا اعتراف و اقرار کے ذریعہ ثابت ہو۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
اوپر کی حدیث میں اس زانی کی سزا بیان کی گئی تھی جو غیر محصن ہو، اس حدیث میں اس زانی کی سزا بیان کی گئی ہے جو محصن ہو، محصن کی وضاحت اوپر کی حدیث کے ضمن میں کی جاچکی ہے چناچہ جو شخص محصن ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور اس کا جرم ثابت ہوجائے اس کی سزا رجم یعنی سنگساری ہے کہ اس شخص کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے۔ جس آیت سے رجم کا حکم ثابت ہے وہ پہلے قرآن کریم میں موجود تھی لیکن بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی یعنی اس کے الفاظ قرآن میں باقی نہیں رکھے گئے لیکن ان کا حکم بحالہ باقی رہا، وہ آیت یہ ہے۔ (الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فرجموہما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم )۔ حدیث کے آخر میں زنا کے ثبوت جرم کے لئے تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو ضروری قرار دیا گیا ہے یعنی (١) گواہ (٢) حمل (٣) اقرار، ان تینوں میں سے حمل کا تعلق اس عورت سے ہے جو بغیر خاوند والی ہو لیکن اس کا حکم بھی منسوخ ہوگیا ہے، گواہوں اور اقرار کا حکم جوں کا توں ہے کہ محصن زانی کو اسی وقت رجم (سنگسار) کیا جائے گا جب کہ اس کا جرم یا تو گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو یا وہ خود اپنے جرم کا اعتراف و اقرار کرے۔
Top