مقررہ ذریعہ معاش کو بلاسبب ترک نہ کرو
حضرت نافع کہتے ہیں کہ میں اپنی تجارت کا مال و اسباب تیار کر کے اپنے ملازموں اور وکیلوں کی سپردگی میں شام اور مصر بھیجا کرتا تھا پھر بعد میں ایک مرتبہ میں نے اپنا تجارتی سامان عراق کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ ام المؤمنین میں (پہلے تو) اپنا تجارتی سامان شام بھیجا کرتا تھا مگر اب میرا ارادہ ہے کہ اپنا تجارتی سامان لے کر عراق کی طرف جاؤں یہ سن کر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو تمہیں اور تمہاری تجارت کو کیا ہوا ہے کہ تم شام کے سلسلہ تجارت کو منقطع کرتے ہو میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے رزق کا کوئی سبب کسی صورت میں پیدا کر دے تو اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے حتی کہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا ہوجائے یا نقصان پہنچنے لگے۔
تشریح
آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے رزق کا جو بھی جائز ذریعہ ہو مثلا وہ سامان تجارت کہیں باہر بھیجتا ہو جس کے نفع سے اسے رزاق حاصل ہوتا ہو تو وہ اس کو بلاسبب چھوڑے نہیں ہاں اگر کوئی ایسا امر پیش آجائے جس کی بناء پر اس ذریعے کو ختم کرنا ہی ضروری ہو مثلا نفع ہونا بند ہوجائے یا اصل مال میں نقصان واقع ہونے لگے تو ایسی صورت میں اسے چھوڑ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص ازقسم مباح کسی اچھی چیز کو حاصل کرلے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کو اللہ کی ایک نعمت سمجھ کر اس پر قائم و برقرار رہے اور بغیر کسی قوی عذر کے اسے چھوڑ کر اس کے بغیر کی طرف مائل نہ ہو۔