مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5050
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله لا يظلم مؤمنا حسنة يعطي بها في الدنيا ويجزي بها في الآخرة وأما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله في الدنيا حتى إذا أفضى إلى الآخرة لم يكن له حسنة يجزى بها . رواه مسلم
کافر کے اچھے کام کا اجر اس کو اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ مومن کی نیکی کا اجر ضائع نہیں کرتا، کہ اس کی اس نیکی کے سبب اس کو دنیا میں بھلائیاں دی جاتی ہیں اور آخرت میں بھی اس کا اجروثواب دیا جائے گا۔ اور کافر اللہ کی خوشنودی کے لئے جو اچھے کام کرتا ہے اس کو اس کے بدلہ میں اس دنیا میں کھلا پلا دیا جاتا ہے (یعنی وہ ان اچھے کاموں کی وجہ سے جس بھلائی کا مستحق ہوتا ہے وہ اس کو نعمتوں اور راحتوں کی صورت میں اس دنیا میں دے دی جاتی ہے) یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے نامہ اعمال میں ایسی کوئی نیکی نہیں ہوگی کہ جس کی وجہ سے اس کو وہاں اجروثواب دیا جائے۔ (مسلم)

تشریح
اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ آخرت کی بھلائی اور وہاں کے اجروثواب کا دارومدار دنیا میں محض اچھے کام کرنے پر نہیں ہے بلکہ ایمان و عقیدہ پر ہے چناچہ وہ نیک کام جو اللہ کی خوشنودی کے لئے کئے جاتے ہیں اور جن سے اللہ یقیناخوش ہوتا ہے، جب کوئی مومن کرتا ہے تو اس کو ان نیک کاموں کی وجہ سے دنیا میں بھی اچھا بدلہ ملتا ہے۔ بایں طور پر کہ اس کے کاروبار معیشت اور رزق میں وسعت وفراخی عطا کی جاتی ہے، اس کی زندگی کو چین و سکون اور خوش حالی وقلبی اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور پھر اس کو ہر طرح کی آفات وبلیات اور ناپسندیدہ عناصر سے محفوظ ومامون رکھا جاتا ہے اور پھر جب وہ اس دنیا کی زندگی کو پورا کر کے آخرت میں پہنچے گا تو اس کو وہاں بھی ان نیک کاموں کا پورا پورا اجر وثواب ملے گا۔ اس کے برخلاف جب کافر اچھے اعمال کرتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہو جیسے فقیر و محتاج کو کھانا کھلانا اور اس کی مدد کرنا، یتیم اور بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنا اور اس طرح کے دوسرے فلاح ورفاہی کے کام تو اس کے ان اچھے کاموں کا پورا بدلہ اس کو دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے، جب کہ آخرت میں وہ ان اچھے کاموں کا کوئی اجروثواب پانے کا مستحق نہیں ہوگا۔ رہی یہ بات کہ جس طرح مومن کو دنیا میں اپنے اچھے کاموں کا بدلہ اچھا ملتا ہے اسی طرح کیا اس کو دنیا میں برے کاموں کی سزا بھی ملتی ہے؟ تو اس کا جواب اثبات میں ہوگا کہ حق تعالیٰ اپنے جس بندہ کو آخرت کے عذاب وشدائد سے بچانا چاہتا ہے اس کو اس کی برائیوں کی سزا اس دنیا میں دے دیتا ہے۔ چناچہ ایک دوسری حدیث میں منقول ہے کہ مومن کو اس کے برے کاموں کا بدلہ دنیا میں مختلف قسم کے مصائب وآلام اور تکالیف وپریشانیوں کی صورت میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اس کے نامہ اعمال میں ایسی کوئی برائی نہیں ہوگی جس پر وہ عذاب کا مستوجب قرار پائے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کو احمد اور ابن حبان نے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ من یعمل سوء یجز بہ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ اگر ایسا ہے کہ بندہ سے جو بھی برائی صادر ہوگی اس کی وجہ سے اس کو آخرت میں ضرور سزا دی جائے گی اور ظاہر ہے کہ دنیا میں ہر بندے سے چھوٹی یا بڑی کوئی نہ کوئی برائی ضرور صادر ہوتی ہے) تو پھر نجات پانے والا کون شخص ہوگا؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تمہیں بخشے، کیا تم غمگین نہیں ہوتے، کیا تم رنج والم نہیں اٹھاتے، کیا تم بیمار نہیں ہوتے اور کیا تمہیں کوئی آفت یا بلا نہیں پہنچتی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! ﷺ حضور ﷺ نے فرمایا (تو یاد رکھو) یہ چیز (یعنی تمہارا کسی تکلیف و مصیبت اور رنج والم میں مبتلا ہونا) دراصل تمہارے حق میں اس برائی کی سزا اور بدلہ ہے جو تم سے صادر ہوجاتی ہے۔
Top