مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5062
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أخذ عني هؤلاء الكلمات فيعمل بهن أو يعلم من يعمل بهن ؟ قلت أنا يا رسول الله فأخذ بيدي فعد خمسا فقال اتق المحارم تكن أعبد الناس وارض بما قسم الله لك تكن أغنى الناس وأحسن إلى جارك تكن مؤمنا وأحب للناس ما تحب لنفسك تكن مسلما ولا تكثر الضحك فإن كثرة الضحك تميت القلب . رواه أحمد والترمذي وقال هذا حديث غريب
پانچ بہترین باتوں کی نصیحت
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کون شخص ہے جو مجھ سے پانچ باتوں کو سیکھے اور پھر ان پر عمل کرے یا اس شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرنے والا ہو۔ (حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ وہ شخص میں ہوں۔ حضور ﷺ نے (یہ سن کر) میرا ہاتھ پکڑا اور وہ پانچ باتیں گنائیں اور (اس طرح) بیان فرمایا۔ (١) تم ان چیزوں سے بچو، جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اگر تم ان سے بچو گے تو تم لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار بندہ ہوگے۔ (٢) تم اس چیز پر راضی وشاکر رہو جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے، اگر تم تقدیر الٰہی پر راضی و مطمئن رہو گے تو تمہارا شمار تونگر ترین لوگوں میں ہوگا، یعنی جب بندہ اپنے مقسوم پر راضی و مطمئن ہوجاتا ہے اور طمع وحرص سے پاک ہو کر زیادہ طلبی کی احتیاج نہیں رکھتا تو وہ مستغنی اور بےنیاز ہوجاتا ہے تونگری کا اصل مفہوم بھی یہی ہے۔ (٣) تم اپنے ہمسایہ سے اچھا سلوک کرو (اگرچہ تمہارے ساتھ برا سلوک کرے) اگر تم ایسا کروگے تو تم کامل مومن سمجھے جاؤگے۔ (٤) تم زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ (اور اللہ کی یاد سے غافل) بنا دیتا ہے (اگر تم زیادہ ہنسنے سے اجتناب کرو گے تو تمہارا دل روحانی بالیدگی وتروتازگی اور نور سے بھرا رہے گا اور ذکر اللہ کے ذریعہ اس کو زندگی و طمانیت نصیب ہوگی) اس روایت کو احمد نے نقل کیا ہے اور (ترمذی نے) کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
حدیث کے ابتدائی جملوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم، بذات خود افضل اشرف ہے کہ کسی شخص کا محض علم کا حاصل ہونا اس کی فضیلت کی دلیل ہے، ہاں اگر اس علم پر عمل پیرا ہونے کی دولت بھی نصیب ہوجائے تو اس سے بڑی کوئی سعادت ہی نہیں کہ علم کا اصل مقصود حاصل ہوجاتا ہے، لیکن اگر کوئی عالم اپنے علم پر خود تو عمل نہ کرے البتہ تعلیم و تلقین کے ذریعہ اس علم کی روشنی دوسرے تک پہنچائے اور سیدھی راہ دکھانے کا فریضہ انجام دے تو اس کو اس صورت میں بھی ثواب ملتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بےعمل عالم کا لوگوں کو نیکی و بھلائی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا درست ہے۔ محارم کے مفہوم میں ہر طرح کی ممنوع چیزوں کو اختیار کرنا اور جن چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کو ترک کرنا شامل ہے لہٰذا تم محارم یعنی ان چیزوں سے بچو جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ممنوع اور حرام چیزوں سے اجتناب کرو بلکہ شریعت نے جن چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ان کو ترک کرنے سے بھی اجتناب کرو۔ محارم سے اجتناب کرنے والے کو سب سے زیادہ عبادت گزار بندہ اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ محارم سے اجتناب کرنا گویا ان فرائض سے عہدہ برآ ہونا ہے جو حق تعالیٰ نے عائد کئے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ فرائض کو پورا کرنے سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے، جب کہ عام لوگ فرائض کو ترک کرتے ہیں یا ان کی طرف کم توجہ دیتے ہیں اور کثرت نوافل میں مشغول رہتے ہیں اور اس طرح وہ گویا اصول اور بنیاد کو تو ضائع کرتے ہیں اور فروعات و فضائل کو اختیار کرتے ہیں، مثلا بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص پر روزوں کی قضا واجب ہوتی ہے مگر وہ اس قضا کو ادا کرنے کی طرف سے تو غافل رہتا ہے میں البتہ حصول علم اور فضل عبادات میں مشغول رہنے کو ترجیح دیتا ہے، یا ایک شخص پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یا لوگوں کے مالی حقوق اس کے ذمہ ہوتے ہیں مگر وہ زکوٰۃ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف تو کوئی توجہ نہیں دیتا البتہ فقراء و مساکین پر خرچ کرنا اور مساجد ومدارس کی تعمیر واعانت یا اسی طرح کے دوسرے نافلہ امور میں پورے زوق وشوق کے ساتھ اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ تقدیر الٰہی پر راضی و مطمئن ہونا اور اپنے مقسوم پر صابر وشاکر رہنا، بڑا اونچا مرتبہ ہے، جس شخص کو یہ مقام نصیب ہوجاتا ہے وہ حرص وطمع سے پاک رہتا ہے، زیادہ طلبی سے اپنا دامن چھپاتا ہے اور قلبی استغنا و تونگری کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارہ نہیں کرتا۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے مشہور بزرگ حضرت سید ابوالحسن شاذلی سے کیمیا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ (کیمیا) دو باتوں میں پوشیدہ ہے۔ ایک تو یہ کہ تم مخلوق کو نظر سے گرادو (یعنی غیر اللہ کو حاجت روا اور مشکل کشا بنانے کے قابل نہ سمجھو اور اللہ کے سوا کسی اور سے اپنی حاجت کو وابستہ نہ کرو) او دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے بھی یہ امید وابستہ نہ کرو کہ وہ تمہیں اس چیز کے علاوہ کچھ اور بھی دے جو اس نے تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) نے فرمایا۔ اے انسان اس بات کو جان لے کہ جو چیز تیری قسمت میں لکھی جاچکی ہے وہ ہر حال میں تجھے ملے گی، خواہ تو طلب وسوال کی راہ اختیار کر یا اس راہ کو ترک کردے اور جو چیز تیری قسمت میں نہی لکھی ہے وہ تجھ کو کسی حالت میں نہیں ملے گی۔ خواہ تو اس کی طلب کی کتنی ہی حرص رکھے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کتنی ہی سعی و کوشش اور محنت ومشقت برداشت کرے، لہٰذا (تجھے جو کچھ مل جائے) اس پر شاکر وصابر رہ، ہر حالت میں جائز و حلال چیز کو حاصل کرنا ضروری سمجھ اور اپنے مقسوم پر راضی و مطمئن رہ تاکہ رب ذوالجلال تجھ سے راضی وخوش رہے۔ تم جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتے ہو کا مطلب یہ ہے کہ دین ودنیا کی بہتری و بھلائی کی جس چیز کو تم خاص طور پر اپنے لئے پسند کرتے ہو اس چیز کو دوسروں کے لئے بھی پسند کرو، یہاں تک کہ کافر کے لئے ایمان کو اور فاجر کے لئے توبہ وانابت کو پسند کرو۔
Top