مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5080
وعن أبي أمامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أغبط أوليائي عندي لمؤمن خفيف الحاذ ذو حظ من الصلاة أحسن عبادة ربه وأطاعه في السر وكان غامضا في الناس لا يشار إليه بالأصابع وكان رزقه كفافا فصبر على ذلك ثم نقد بيده فقال عجلت منيته قلت بواكيه قل تراثه . رواه أحمد والترمذي وابن ماجه
قابل رشک زندگی
حضرت ابوامامہ ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میرے نزدیک (یعنی میرے دین و مذہب کے اعتبار سے) میرے دوستوں (تمام مومنین) میں نہایت قابل رشک (یعنی اموال کے اعتبار سے سب سے اچھا اور مال و دولت کے اعتبار سے سب سے افضل) وہ مومن جو سبکسار ہے، نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے اور اپنے رب کی سب ہی عبادتیں خوبی کے ساتھ کرتا ہے (اور جس طرح ظاہر میں عبادت کرتا ہے اسی طرح) مخفی طور پر (خلوت میں بھی) طاعت الٰہی میں مشغول رہتا ہے، لوگوں میں گمنام ہے کہ اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاتا (یعنی اپنے علم وعمل کے سبب لوگوں میں مشہور و معروف نہیں ہے بلکہ نہایت بےنفسی کے ساتھ گوشہ گمنامی میں رہ کر علم وعمل کے ذریعہ دین وملت کی خدمت کرتا ہے) نیز اس کی روزی (یعنی ضروریات زندگی کا خرچ) بقدر کفایت ہے اور اسی پر صابر وقانع ہے۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے ذریعہ چٹکی بجائی اور فرمایا اس کی موت بس یوں (چٹکی بجاتے) اپنا کام جلد پورا کرلیتی ہے اور اس کی موت پر رونے والی عورتیں بھی کم ہوتی ہیں اور اس کا ترکہ بھی بہت مختصر (یعنی نہ ہونے کے برابر) ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
حاذ کے معنی سواری کی پشت کے ہیں اور قاموس کے مطابق خفیف الحاذ کا مطلب قلیل المال والعیال خفیف الحاذ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو زیادہ اہل و عیال کو بوجھ اور مال و دولت کی گرانباری نہ رکھتا ہو۔ صراح میں یہ لکھا ہے کہ خفیف الحاذ کے معنی ہلکی پیٹھ کے ہیں یعنی وہ شخص جو زیادہ اہل و عیال اور مال و دولت کے جھمیلوں سے فارغ ہو بہرحال دونوں ہی صورتوں میں ایسا شخص چونکہ دنیاوی تفکرات مشغولیات سے عاری ہوتا ہے اور فراغ قلب ووقت رکھتا ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت وطاعت اور دین وملت کی خدمت میں اچھی طرح مشغول رہتا ہے اور از قسم علائق کوئی چیز اس کی راہ عبادت و خدمت میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضور قلب اور مناجات مع اللہ کے ساتھ نماز بہت زیادہ پڑھتا ہے اور اپنا زیادہ تر وقت عبادت الٰہی میں صرف کرتا ہے کیونکہ اہل و عیال اور دنیاوی جھمیلوں سے بہت کم تعلق رکھنے اور قلت مشغولیت کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نماز و عبادت ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے، بلکہ نماز و عبادت میں اس کو حضور قلب بھی بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے چناچہ حقیقی درویش اور اللہ رسیدہ لوگ دنیاوی علائق و تعلقات سے کنارہ کشی اس لئے اختیار کرتے ہیں تاکہ نماز و عبادت الٰہی میں زیادہ سے زیادہ حضور قلب حاصل کرسکیں۔ لوگوں میں گمنام ہے میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ عبادت و ریاضت کے لئے لوگوں کے درمیان بودوباش ترک نہیں کرتا بلکہ ان کے درمیان رہ کر ہی عبادت و ریاضت اور دین وعلم کی خدمت میں خاموشی کے ساتھ مشغول رہتا ہے اور اپنے آپ کو عام شہرت سے بچائے رکھتا ہے گویا اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنے کو عام شہرت سے بچانے کے لئے لوگوں کے درمیان سے چلا جاتا ہے اور سب سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے کیونکہ عام لوگوں کے درمیان بودوباش ترک کردینا اور کنارہ کشی اختیار کرلینا بجائے خود موجب شہرت ہے، نیز اس جملہ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ لوگوں سے مراد عوام الناس ہیں، چناچہ خواص یعنی اولیاء وصلحاء کے درمیان اس کا متعارف ہونا کہ جن کا وہ ہمنشین رہتا ہے، اس کے مذکورہ مرتبہ کے منافی نہیں ہے۔ یہ بات بعد کے جملہ ولا یشاء الیہ الخ سے بھی مفہوم ہوتی ہے۔ لقد بیہ، کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ آپ نے اپنے انگوٹھے کے پورے کو اپنی بیچ کی انگلی کے پورے پر مارہ جس سے نکلی ہوئی آواز کو سنا گیا۔ اور حاصل یہ کہ جس طرح عام طور پر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ کسی بات پر اظہار حیرت وتعجب کے لئے یا کسی کام کی مدت کو کم سے کم بیان کرنے کے لئے چٹکی بجا کر کہتے ہیں کہ فلاں کا بس یوں چٹکی بجاتے ہوگیا اسی طرح حضور ﷺ نے بھی مذکورہ مومن کا حال بیان فرمایا کہ وہ دنیا میں اپنی مذکورہ حالت و کیفیت کے ساتھ زندہ رہتا ہے کہ موت اس کے تشتہ جسم وجان کو چند دن کے بعد ختم کردیتی ہے اور وہ فتنہ وآشوب سے بھرے ہوئے اس عالم سے بہت جلد انتقال کرجاتا ہے اور یہاں کی آفات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات پا جاتا ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ ایسا مومن چونکہ اس دنیا سے بہت کم تعلق رکھتا ہے اور شوق آخرت اس پر غالب ہوتا ہے اس لئے وقت موعود آنے پر وہ نہایت آسانی اور سکون کے ساتھ بہت جلد اپنی جان، آفرین کے سپرد کردیتا ہے۔
Top