Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (5045 - 5119)
Select Hadith
5045
5046
5047
5048
5049
5050
5051
5052
5053
5054
5055
5056
5057
5058
5059
5060
5061
5062
5063
5064
5065
5066
5067
5068
5069
5070
5071
5072
5073
5074
5075
5076
5077
5078
5079
5080
5081
5082
5083
5084
5085
5086
5087
5088
5089
5090
5091
5092
5093
5094
5095
5096
5097
5098
5099
5100
5101
5102
5103
5104
5105
5106
5107
5108
5109
5110
5111
5112
5113
5114
5115
5116
5117
5118
5119
مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5080
وعن أبي أمامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أغبط أوليائي عندي لمؤمن خفيف الحاذ ذو حظ من الصلاة أحسن عبادة ربه وأطاعه في السر وكان غامضا في الناس لا يشار إليه بالأصابع وكان رزقه كفافا فصبر على ذلك ثم نقد بيده فقال عجلت منيته قلت بواكيه قل تراثه . رواه أحمد والترمذي وابن ماجه
قابل رشک زندگی
حضرت ابوامامہ ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میرے نزدیک (یعنی میرے دین و مذہب کے اعتبار سے) میرے دوستوں (تمام مومنین) میں نہایت قابل رشک (یعنی اموال کے اعتبار سے سب سے اچھا اور مال و دولت کے اعتبار سے سب سے افضل) وہ مومن جو سبکسار ہے، نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے اور اپنے رب کی سب ہی عبادتیں خوبی کے ساتھ کرتا ہے (اور جس طرح ظاہر میں عبادت کرتا ہے اسی طرح) مخفی طور پر (خلوت میں بھی) طاعت الٰہی میں مشغول رہتا ہے، لوگوں میں گمنام ہے کہ اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاتا (یعنی اپنے علم وعمل کے سبب لوگوں میں مشہور و معروف نہیں ہے بلکہ نہایت بےنفسی کے ساتھ گوشہ گمنامی میں رہ کر علم وعمل کے ذریعہ دین وملت کی خدمت کرتا ہے) نیز اس کی روزی (یعنی ضروریات زندگی کا خرچ) بقدر کفایت ہے اور اسی پر صابر وقانع ہے۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے ذریعہ چٹکی بجائی اور فرمایا اس کی موت بس یوں (چٹکی بجاتے) اپنا کام جلد پورا کرلیتی ہے اور اس کی موت پر رونے والی عورتیں بھی کم ہوتی ہیں اور اس کا ترکہ بھی بہت مختصر (یعنی نہ ہونے کے برابر) ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
حاذ کے معنی سواری کی پشت کے ہیں اور قاموس کے مطابق خفیف الحاذ کا مطلب قلیل المال والعیال خفیف الحاذ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو زیادہ اہل و عیال کو بوجھ اور مال و دولت کی گرانباری نہ رکھتا ہو۔ صراح میں یہ لکھا ہے کہ خفیف الحاذ کے معنی ہلکی پیٹھ کے ہیں یعنی وہ شخص جو زیادہ اہل و عیال اور مال و دولت کے جھمیلوں سے فارغ ہو بہرحال دونوں ہی صورتوں میں ایسا شخص چونکہ دنیاوی تفکرات مشغولیات سے عاری ہوتا ہے اور فراغ قلب ووقت رکھتا ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت وطاعت اور دین وملت کی خدمت میں اچھی طرح مشغول رہتا ہے اور از قسم علائق کوئی چیز اس کی راہ عبادت و خدمت میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضور قلب اور مناجات مع اللہ کے ساتھ نماز بہت زیادہ پڑھتا ہے اور اپنا زیادہ تر وقت عبادت الٰہی میں صرف کرتا ہے کیونکہ اہل و عیال اور دنیاوی جھمیلوں سے بہت کم تعلق رکھنے اور قلت مشغولیت کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نماز و عبادت ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے، بلکہ نماز و عبادت میں اس کو حضور قلب بھی بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے چناچہ حقیقی درویش اور اللہ رسیدہ لوگ دنیاوی علائق و تعلقات سے کنارہ کشی اس لئے اختیار کرتے ہیں تاکہ نماز و عبادت الٰہی میں زیادہ سے زیادہ حضور قلب حاصل کرسکیں۔ لوگوں میں گمنام ہے میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ عبادت و ریاضت کے لئے لوگوں کے درمیان بودوباش ترک نہیں کرتا بلکہ ان کے درمیان رہ کر ہی عبادت و ریاضت اور دین وعلم کی خدمت میں خاموشی کے ساتھ مشغول رہتا ہے اور اپنے آپ کو عام شہرت سے بچائے رکھتا ہے گویا اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنے کو عام شہرت سے بچانے کے لئے لوگوں کے درمیان سے چلا جاتا ہے اور سب سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے کیونکہ عام لوگوں کے درمیان بودوباش ترک کردینا اور کنارہ کشی اختیار کرلینا بجائے خود موجب شہرت ہے، نیز اس جملہ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ لوگوں سے مراد عوام الناس ہیں، چناچہ خواص یعنی اولیاء وصلحاء کے درمیان اس کا متعارف ہونا کہ جن کا وہ ہمنشین رہتا ہے، اس کے مذکورہ مرتبہ کے منافی نہیں ہے۔ یہ بات بعد کے جملہ ولا یشاء الیہ الخ سے بھی مفہوم ہوتی ہے۔ لقد بیہ، کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ آپ نے اپنے انگوٹھے کے پورے کو اپنی بیچ کی انگلی کے پورے پر مارہ جس سے نکلی ہوئی آواز کو سنا گیا۔ اور حاصل یہ کہ جس طرح عام طور پر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ کسی بات پر اظہار حیرت وتعجب کے لئے یا کسی کام کی مدت کو کم سے کم بیان کرنے کے لئے چٹکی بجا کر کہتے ہیں کہ فلاں کا بس یوں چٹکی بجاتے ہوگیا اسی طرح حضور ﷺ نے بھی مذکورہ مومن کا حال بیان فرمایا کہ وہ دنیا میں اپنی مذکورہ حالت و کیفیت کے ساتھ زندہ رہتا ہے کہ موت اس کے تشتہ جسم وجان کو چند دن کے بعد ختم کردیتی ہے اور وہ فتنہ وآشوب سے بھرے ہوئے اس عالم سے بہت جلد انتقال کرجاتا ہے اور یہاں کی آفات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات پا جاتا ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ ایسا مومن چونکہ اس دنیا سے بہت کم تعلق رکھتا ہے اور شوق آخرت اس پر غالب ہوتا ہے اس لئے وقت موعود آنے پر وہ نہایت آسانی اور سکون کے ساتھ بہت جلد اپنی جان، آفرین کے سپرد کردیتا ہے۔
Top