مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5104
وعن جابر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسم إن أخوف ما أتخوف على أمتي الهوى وطول الأمل فأما الهوى فيصد عن الحق وأما طول الأمل فينسي الآخرة وهذه الدنيا مرتحلة ذاهبة وهذه الآخرة مرتحلة قادمة ولكل واحدة منهما بنون فإن استطعتم أن لا تكونوا بني الدنيا فافعلوا فإنكم اليوم في دار العمل ولا حساب وأنتم غدا في دار الآخرة ولا عمل . رواه البيهقي في شعب الإيمان
دو خوفناک چیزوں کا ذکر
حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنی امت کے بارے میں جن دو چیزوں سے بہت زیادہ ڈرتا ہوں، ان میں سے ایک تو خواہش نفس ہے، دوسرے (تاخیر عمل اور نیکیوں سے غفلت کے ذریعہ) درازی عمر کی آرزو ہے، پس نفس کی خواہش (جو حق کے مخالف اور باطل کے موافق ہوتی ہے) حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے سے روکتی ہے اور جہا تک درازی عمر کی آرزو کا تعلق ہے تو وہ آخرت کو بھلا دیتی ہے اور (یاد رکھو) یہ دنیا کوچ کر کے چلی جانے والی ہے اور آخرت کوچ کر کے آنے والی ہے (یعنی یہ دنیا لمحہ بہ لمحہ گزرتی چلی جا رہی ہے اور آخرت لمحہ بہ لمحہ تمہاری طرف چلی آرہی ہے) نیز ان دونوں (یعنی دنیا اور آخرت) میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں (یعنی کچھ لوگ تو وہ ہیں جو دنیا کے تابع و محکوم اور اس کی دوستی و چاہت رکھنے والے ہیں گویا وہ دنیا کے بیٹے ہیں اور کچھ لوگ وہی جو آخرت کے تابع و محکوم اور اس کے دوست و طلب گار ہیں گویا وہ آخرت کے بیٹے ہیں) لہٰذا اگر تم سے یہ ہو سکے کہ تم دنیا کے بیٹے نہ بنو تو ایسا ضرور کرو کہ (یعنی ایسے کام کرو اور ایسے راستے پر چلو کہ دنیا کا داؤ تم پر نہ چل سکے اور تم اس کی اتباع و فرمانبرداری اور اس کی محبت و چاہت کے دائرے سے نکل کر آخرت کے تابع و محکوم اور اس کے طلبگار بن جاؤ) کیونکہ تم آج دنیا میں ہو جو دارالعمل (عمل کرنے کی جگہ) ہے جہاں عمل کا حساب نہیں لیا جاتا (پس اس موقع کو غنیمت جانو اور اجل آنے سے پہلے عمل کرلو) جب کہ تم کل آخرت کے گھر میں جاؤ گے تو وہاں عمل کرنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا (بلکہ وہاں صرف محاسبہ ہوگا)۔ (بیہقی)

تشریح
دنیا کوچ کر کے چلی جانے والی ہے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا اپنے تمام سر و سامان کے ساتھ اس طرح فنا کی طرف جا رہی ہے کہ اس میں رہنے والوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا جس طرح کشتی کے اندر بیٹھا ہوا شخص کشتی کو چلتے ہوئے محسوس نہیں کرتا۔ حدیث کا یہ جملہ اور مابعد کا جملہ دراصل دنیا کے نہایت جلد گزرنے اور فناء ہوجانے کے مفہوم کو واضح کرتا ہے کیونکہ اگر آخرت اپنی جگہ قائم ہوتی اور صرف دنیا اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اس کی طرف چلتی تو بھی یہ پوری گزر ہی جاتی اور اپنی عمر تمام کرلیتی اگرچہ اس کے سفر کو کچھ وقفہ اور مل جاتا مگر جب صورت حال یہ ہے کہ ادھر سے تو آخرت چلی آرہی ہے اور ادھر سے دنیا اس کی طرف کو چلی جا رہی ہے تو گویا وہ نقطہ کہ جہاں دنیا کا اختتام اور آخرت کی ابتدا ہونے والی ہے درمیان راہ میں ہی واقع ہوجائے گا اور مسافت بہت جلد ختم ہوجائے گی۔ جہاں عمل کا حساب نہیں لیا جاتا یہ بات ظاہر کے اعتبار سے اور فاسق و فاجر کی نسبت سے فرمائی گئی ہے ورنہ تو ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا۔ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے۔
Top