مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5114
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تجيء الأعمال فتجيء الصلاة قتقول يارب أنا الصلاة . فيقول إنك على خير . فتجيء الصدقة فتقول يارب أنا الصدقة . فيقول إنك على خير ثم يجيء الصيام فيقول يارب أنا الصيام . فيقول إنك على خير . ثم تجيء الأعمال على ذلك . يقول الله تعالى إنك على خير . ثم يجيء الإسلام فيقول يا رب أنت السلام وأنا الإسلام . فيقول الله تعالى إنك على خير بك اليوم آخذ وبك أعطي . قال الله تعالى في كتابه ( ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الحاسرين )
قیامت کے دن بندوں کے حق میں نیک اعمال کی شفاعت
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) اعمال (خداوند برتر و بزرگ کے حضور) آئیں گے۔ پس (سب سے پہلے) نماز پیش ہوگی اور عرض کرے گی کہ اے پروردگار! میں نماز ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ بیشک تو بھلائی ہے۔ پھر صدقہ یعنی زکوٰۃ پیش ہوگی اور عرض کرے گی کہ اے پروردگار! میں صدقہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بیشک تو بھلائی ہے۔ اور پھر روزہ پیش ہوگا اور عرض کرے گا کہ اے پروردگار میں روزہ ہوں اسی طرح یکے بعد دیگرے دوسرے اعمال جیسے حج جہاد اور طلب علم وغیرہ پیش ہوں گے اور ہر ایک عمل مذکورہ بالا الفاظ میں اپنا تعارف پیش کرے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو خیر پر ہے (گویا ہر نیک عمل اپنے تعارف کے ذریعہ بندوں کے حق میں جو شفاعت کرے گا اس کی قبولیت کو حق تعالیٰ موقوف رکھے گا اور ہر ایک کی درخواست کو نہایت ملائمت و نرمی اور مہربانی کے ساتھ ملتوی رکھے گا) پھر (سب سے آخر میں) اسلام پیش ہوگا اور عرض کرے گا کہ اے پروردگار تیرا نام سلام ہے کہ تیری ذات تمام عیوب و آفات اور ہر طرح نقص سے سالم و پاک ہے اور تو تمام بندوں کو ہر طرح کے خوف اور تمام سختیوں اور مصیبتوں سے سلامتی بخشنے والا ہے اور میں اسلام ہوں (کہ تیرے حضور عجز و نیاز کرنے والا اور تیرے احکام کا مطیع و فرمانبردار ہوں، نیز میرے بارے میں تو نے خود فرمایا ہے کہ آیت (ان الدین عند اللہ الاسلام) پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ بیشک تو بھلائی پر ہے، آج کے دن میں تیرے ہی سبب مواخذہ کروں گا اور تیرے ہی وسیلہ سے عطا کروں گا (یعنی آج جزا و سزا کے دن میں تجھے ہی اصل اور طاعت معصیت کے فیصلوں کا مدار قرار دیتا ہوں کہ جس نے تجھے اختیار نہیں کیا اور تیرے راستے پر نہیں چلا اس سے مواخذہ کروں گا اور اس کو عذات میں مبتلا کروں گا اور جس نے تجھے اختیار کیا اور تیرے راستہ پر گامزن رہا اس کو جزا وثواب دوں گا، لہٰذا تو جو کچھ چاہتا ہے ہمارے سامنے عرض کر، ہم تیری ہر سفارش و شفاعت قبول کریں گے) چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے آیت (ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وہو فی الاخرۃ من الخسرین)۔ یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی دین کو اختیار کرے گا اس سے وہ دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں ٹوٹے میں رہنے والوں میں سے ہے۔

تشریح
تجیء الاعمال کا مطب یہ کہ قیامت کے دن نیک اعمال بحضور رب ذوالجلال پیش ہوں گے اور دنیا میں جن لوگوں نے ان اعمال کو اختیار کیا ہوگا ان کے حق میں گواہی دیں گے اور ان کی شفاعت کریں گے، نیز جن لوگوں نے ان اعمال کو ترک کیا ہوگا ان کے خلاف احتجاج و شکایت کریں گے۔ رہی یہ بات کہ ان اعمال کے پیش ہونے کی کیا صورت ہوگی تو وہ ایک قوی احتمال یہ ہے کہ وہ اعمال اچھی صورتوں میں مشکل ہو کر پیش ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو نہایت پاکیزہ اور خوشنما صورتیں عطا فرمائے گا جیسا کہ بعض احادیث و آثار سے مفہوم ہوتا ہے اور یا یہ کہ حق تعالیٰ کی یہ قدرت پوری طرح ثابت ہے کہ وہ اعراض کو بالذات پیش کر دے اور ان کو قوت گویائی عطا فرمائے۔ حضرت شیخ عبدالحق (رح) نے حدیث کی وضاحت میں یہ لکھا ہے کہ نماز کا یہ تعارف پیش کرنا کہ میں نماز ہوں دراصل اس مفہوم کا حامل ہے کہ اے پروردگار! مجھ کو تیری بارگاہ میں جو عظمت و مرتبہ حاصل ہے کہ تو نے مجھے اپنے دین کا ستون فرمایا ہے اور اپنے نزدیک مقام عزت و قرب سے نوازا ہے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اور بامید قبولیت تیری درگاہ لطف و کرم بندوں کے حق میں شفاعت کرنے حاضر ہوئی ہوں اور چونکہ تو نے یہ فرمایا ہے آیت (ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء والمنکر) اس لئے جس طرح میں دنیا میں لوگوں کو فسق و فجور سے دور رکھنے والی تھی اسی طرح آج کے دن امید وار ہوں کہ لوگوں کو تیرے عذاب سے دور رکھوں اور تیرے غضب سے بچاؤں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نماز سے فرمائے گا کہ بیشک تو بھلائی اور صلاح و فلاح کی حامل ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نماز کی شفاعت کو قبول نہیں فرمائے گا بلکہ اس کی درخواست شفاعت کو موقوف ملتوی رکھے گا اور مذکورہ ارشاد کے ذریعہ اس توقف و التواء کو نہایت بلیغ و پاکیزہ انداز اور حسن کلام کے ذریعہ ظاہر کرے گا اور اس ارشاد کا مفہوم درحقیقت یہ ہوگا کہ اے نماز! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے تجھ کو بہت بڑے مرتبہ کا حامل قرار دیا ہے اور تجھ میں جو فضل و شرف رکھا ہے وہ ایک حقیقت ہے اور بجائے خود ہے، لیکن جہاں تک شفاعت کا تعلق ہے تو یہ ایک دوسرا مرتبہ ہے جو تجھے حاصل نہیں ہے بلکہ یہ صفت و مرتبہ اس کو دیا گیا ہے جو تیری اور تیری ہم مثل عبادتوں کی بنیاد و مبنی ہے اور تمام اچھی صفات کا مجموعہ یعنی دین اسلام۔ اس موقع پر ایک لطیف نکتہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مقام شفاعت پر کھڑا ہونا (یعنی قیامت کے دن بارگارہ رب العزت میں بندوں کے حق میں شفاعت کرنا) صرف اس ذات کو سزا وار ہے جو جامع کمالات ہے جیسا کہ محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات پاک کہ آپ ﷺ کے تمام اسماء صفات الٰہی کے مظہر ہیں، چناچہ شفاعت کا حق صرف آپ ﷺ کی ذات کو حاصل ہوگا، آپ کے علاوہ کوئی اور پیغمبر شفاعت کا دروازہ کھلوانے پر قادر نہیں ہوگا اسی طرح اعمال میں بھی صرف وہی عمل شفاعت کرنے کا مجاز ہوگا جو تمام صفات و کمالا کا جامع ہے یعنی اسلام، جیسا کہ حدیث کے آخری جز سے واضح ہوتا ہے۔ صدقہ کا یہ تعارف پیش کرنا کہ میں صدقہ ہوں اس مفہوم کا حامل ہوگا کہ پروردگار! میں اپنی عزت و فضیلت کا سہارا لے کر تیری بارگاہ میں شفاعت کرنے حاضر ہوا ہوں جس سے تو نے اپنے لطف و کرم کے طفیل مجھے نوازا ہے اور میرے حق میں فرمایا ہے کہ الصدقۃ تطفی غضب الرب اسی طرح روزہ کے اس تعارف کا کہ میں روزہ ہوں یہ مفہوم ہوگا کہ پروردگار! میں وہ عبادت یعنی روزہ ہوں جو اس مخصوص صفت و حیثیت کا حامل ہے کہ تو نے اس کی وہ خاص جزا رکھی ہے جس کو تیرے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا اور جس شخص نے اس کو اختیار کیا اور اس کے پورے حقوق کی رعایت ملحوظ رکھی اس کو تو نے بخشنے اور جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، لہٰذا میں اپنے اس فضیلت و خصوصیت کی بناء پر بامید قبولیت تیری بارگاہ میں درخواست شفاعت لے کر حاضر ہوا ہوں۔ اسلام اپنے تعارف کے سلسلے میں جو اسلوب و انداز اختیار کرے گا وہ مذکورہ بالا دیگر اعمال کے اسلوب تعارف سے مختلف ہوگا، چناچہ اس کو چونکہ باب شفاعت و اکرانے میں بہت دخل ہوگا اس لئے وہ اپنے تعارف اور اپنی درخواست کی ابتداء حق تعالیٰ شانہ کی حمد و تعریف اور اس کے تئیں اظہار تعظیم سے کرے گا جیسا کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جب مقام شفاعت پر کھڑے ہوں گے تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف اور تعظیم و ثنا بیان کریں گے اس کے بعد درخواست پیش کریں گے، لہٰذا اسلام حق تعالیٰ کے حضور پر یش ہو کر اس کو اس کے اسم مبارک سلام کے ذریعہ صدا دے گا اور اپنے آپ کو ایک مطیع و فرمانبردار ذات ظاہر کرے گا اور اس کے بعد درخواست شفاعت پیش کرے گا۔ ایک یہ احتمال بھی ہے کہ حدیث میں اسلام سے مراد دین اسلام نہ ہو بلکہ صفت رضاء تسلیم اور ترک اختیار مراد ہو جو اللہ کے برگزیدہ اور مقرب بندوں کے اعلیٰ مراتب میں سے ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں اسلام کا ذکر اسی مفہوم میں کیا گیا ہے کہ فرمایا۔ آیت (اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العالمین) (یعنی جب ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب نے فرمایا کہ تابعداری اختیار کرو تو انہوں نے کہا کہ میں رب العالمین کا تابعدار ہوا)
Top