مشکوٰۃ المصابیح - دیت کا بیان - حدیث نمبر 3462
وعنه قال : اقتتلت امرأتان من هذيل فرمت إحداهما الأخرى بحجر فقتلتها وما في بطنها فقضى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن دية جنينها غرة : عبد أو وليدة وقضى بدية المرأة على عاقلتها وورثها ولدها ومن معهم (2/293) 3489 - [ 4 ] ( صحيح ) وعن المغيرة بن شعبة : أن امرأتين كانتا ضرتين فرمت إحداهما الأخرى بحجر أو عمود فسطاط فألقت جنينها فقضى رسول الله صلى الله عليه و سلم في الجنين غرة : عبدا أو أمة وجعله على عصبة المرأة هذه رواية الترمذي وفي رواية مسلم : قال : ضربت امرأة ضرتها بعمود فسطاط وهي حبلى فقتلتها قال : وإحداهما لحيانية قال : فجعل رسول الله صلى الله عليه و سلم دية المقتول على عصبة القاتلة وغرة لما في بطنها
پتھر کے ذریعہ ہونے والے قتل میں دیت واجب ہوگی
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) قبیلہ ہزیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ان میں سے ایک نے دوسری عورت کے پتھر کھینچ مارا جس سے وہ عورت بھی مرگئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مرگیا۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ مقتولہ کے اس بچہ کی دیت جو اس کے پیٹ میں مرگیا غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام ہے اور حکم فرمایا کہ مقتولہ کے دیت، قاتلہ کے خاندان و برادری والوں پر ہے نیز آپ نے اس کی دیت کا وراث اس کے بیٹوں اور ان لوگوں کو بنایا جو بیٹوں کے ساتھ (وراثت میں شریک) تھے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ میں جو واقعہ گزرا ہے وہ کسی اور عورت کا ہے اور اس حدیث میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے وہ کسی اور عورت کا ہے۔ پہلی حدیث میں تو یہ ذکر تھا کہ پتھر مارنے سے عورت مرگئی تھی چناچہ اس حدیث میں اس عورت کی وفات اور اس کی وفات کے بعد جو احکام نافذ ہونے تھے ان کا ذکر کرنا مقصود تھا اور اس حدیث میں اس عورت کا ذکر کیا گیا ہے جو پتھر کی چوٹ کھانے کی وجہ سے مرگئی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ کا بچہ بھی مرگیا تھا چناچہ یہاں اس کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ پتھر کے ذریعہ کسی کو ہلاک کردینا دیت کا موجب ہے نہ کہ قصاص کا، نیز یہ قتل عمد کی قسم سے نہیں ہے بلکہ شبہ عمد کی قسم سے ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے لیکن اس بارے میں یہ حدیث چونکہ دوسرے ائمہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے وہ حدیث میں مذکورہ پتھر کو چھوٹے پتھر پر محمول کرتے ہیں۔ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں جو آپس میں سوکنیں تھیں (ایک دن باہم لڑ پڑیں) چناچہ ان میں سے ایک نے دوسری کو (جو حاملہ تھی) پتھر یا خیمے کی چوب سے مارا جس کی وجہ سے اس کا حمل ساقط ہوگیا۔ لہٰذا رسول کریم ﷺ نے پیٹ کے بچہ کی دیت میں غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام دینے کا حکم دیا اور دیت کو آپ نے مارنے والی عورت پر واجب کیا۔ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ اور مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت مغیرہ نے کہا ایک عورت اپنی سوکن کو جو حاملہ تھی، خیمہ کی چوب سے مارا جس کی وجہ سے وہ مرگئی ( اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مرگیا) مغیرہ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک عورت لحیان کے خاندان سے تھی (جو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ ہے) مغیرہ کا بیان ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عاقلہ پر واجب کی اور پیٹ کے بچہ کی دیت میں غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام دینے کا حکم فرمایا۔ تشریح یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ خیمے چوب سے عام طور انسان کو ہلاک کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس عورت کو قتل عمد کا مرتکب قرار دیا گیا بلکہ شبہ عمد کا مرتکب گردانا گیا۔ حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ یہاں پتھر اور چوب سے مراد چھوٹا پتھر اور چوب ہے جس سے عام طور کسی انسان کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں کیا جاتا۔
Top