مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4450
وعن عبد الله بن عمر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ما أبالي ما أتيت إن أنا شربت ترياقا أو تعلقت تميمة أو قلت الشعر من قبل نفسي . رواه أبو داود .
لاپرواہ لوگوں کے کام
اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ہر عمل سے لاپرواہ ہوں اگر میں تریاق پیؤں یا گلے میں منکا ڈالوں اور یا میں اپنے دل سے اور اپنے قصد و ارادہ سے شعر لکھوں (یعنی اشعار بناؤں )۔ (ابو داؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر ان چیزوں میں سے کوئی بھی چیز مجھ سے سرزد ہوجائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میرا شمار ان لوگوں میں سے ہو جو ہر عمل سے لاپرواہ ہوتے ہیں یعنی وہ کسی بھی کام کو کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ آیا ان کو یہ کام کرنا چاہئے یا نہیں، نتیجۃ وہ نامشروع افعال و حرکات سے پرہیز نہیں کرتے۔ گویا اس ارشاد گرامی سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ان چیزوں کو اختیار کرنا اسی شخص کا کام ہوسکتا ہے جو مناسب چیزوں اور غیر مشروع اعمال کو اختیار کرنے کے غیر پابند اور لاپرواہ ہوتے ہیں۔ مذکورہ چیزوں کے استعمال کو آنحضرت ﷺ نے اس لئے مذموم سمجھا کہ تریاق میں تو سانپ کا گوشت اور شراب پڑتی تھی اور یہ چیزیں حرام ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جس تریاق کے اجزاء ترکیبی حرام چیزوں پر مشتمل نہ ہوں اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگرچہ بعض حضرات نے حدیث کے مطلق مفہوم پر عمل کرنے کے پیش نظر اس کے ترک کو بھی اولیٰ قرار دیا ہے، اسی طرح تمیمہ یعنی منکے اور گنڈے سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کو زمانہ جاہلیت کے لوگ جھاڑ پھونک اور عملیات کے ضمن میں استعمال کرتے تھے، لہٰذا ایسے تعویز اور گنڈے وغیرہ جو اسماء الہٰی اور آیات قرآنی وغیرہ پر مشتمل ہوں وہ حکم سے خارج ہیں۔ بلکہ ان کا مستحب ہونا ثابت ہے اور ان کی برکت سے حصول مقصد کی ایک امید کی جاسکتی ہے جہاں تک شعر و شاعری کا تعلق ہے تو آپ ﷺ کے نزدیک اس کا مذموم ہونا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ) کی بناء پر تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ خود کوئی شعر نہیں کہتے تھے بلکہ حق تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شعر گوئی سے پاک و منزہ رکھا تھا، اسی لئے آپ ﷺ شعر کہنے پر قادر ہی نہیں تھے اور یہ بات ہے کہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بےساختہ اور بلا قصد و ارادہ جو موزوں و مقفٰی جملے ادا ہوتے تھے اور آپ ﷺ کا کلام جس فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتا تھا وہ بذات خود وصف شعر گوئی سے کہیں اعلی معیار کی چیز ہوتی تھی، مگر ظاہر ہے کہ یہ چیز نہ تو شعر کہنے کے زمرے میں آتی ہے اور نہ یہ مذموم ہے اور ویسے بھی اہل فن و اصطلاح اس پر بےساختہ اپنے کلام میں دوسروں کے اشعار استعمال کرنے کے باوصف آپ ﷺ کا خود شعر کہنے پر قادر نہ ہونا آپ ﷺ کے علاوہ دوسرے لوگوں کے حق میں اشعار اور شعر گوئی کی حیثیت دوسرے اصناف سخن و کلام کی طرح ہے کہ اچھے مضامین کو اشعار کا جامہ پہنانا اور صالح و پاکیزہ خیالات کو شعر گوئی کے ذریعہ ظاہر کرنا اچھا ہے اور برے مضامین اور گندے خیالات پر مشتمل شعر گوئی کرنا برا ہے تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اس صورت میں بھی اپنے باطن کو شعر گوئی ہی کی طرف متوجہ کرلینا، اسی میں عمر کو ضائع کرنا اور اس میں اتنا زیادہ انہماک و تفکر اختیار کرنا کہ ان دینی امور میں رکاوٹ اور نقصان پیدا ہو جو ضروری اور واجب ہیں یقینا مذموم ہوگا۔ ابن مالک نے اس حدیث کی وضاحت میں کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ شعر کہنا، تریاق پینا اور گلے میں تعویز و گنڈے لٹکانا میرے لئے حرام ہے البتہ امت کے حق میں نہ تو شعر گوئی حرام ہے اور نہ گلے میں تعویذ و گنڈے لٹکانا حرام ہے، بشرطیکہ اس شعر گوئی کے ذریعہ کسی مسلمان کی ہجو نہ کی گئی اور نہ وہ اشعار جھوٹ اور بری باتوں پر مشتمل ہوں اور نہ ہی وہ تعویذ و گنڈے غیر مشروع عملیات سے متعلق ہوں اسی طرح امت کے حق میں وہ تریاق بھی حرام نہیں ہے جس میں کوئی حرام چیز جیسے سانپ کا گوشت وغیرہ شامل نہ ہو،۔
Top