مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 4501
وعن قتادة قال خلق الله تعالى هذه النجوم لثلاث جعلها زينة للسماء ورجوما للشياطين وعلامات يهتدى بها فمن تأول فيها بغير ذلك أخطأ وأضاع نصيبه وتكلف مالا يعلم . رواه البخاري تعليقا وفي رواية رزين تكلف مالا يعنيه ومالا علم له به وما عجز عن علمه الأنبياء والملائكة . وعن الربيع مثله وزاد والله ما جعل الله في نجم حياة أحد ولا رزقه ولا موته وإنما يفترون على الله الكذب ويتعللون بالنجوم .
ستارے کس لئے پیدا کئے گئے ؟
اور حضرت قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو تین باتوں کے لئے پیدا کیا ہے ایک تو یہ کہ ان کو آسمانوں کی زینت بنایا اور دوسرے شیاطین و جنات کو مارنے کے لئے اور تیسرے علامات کے لئے کہ لوگ ان کے ذریعہ جنگل و دریا میں اپنا راستہ پاسکیں، لہٰذا جس شخص نے ان ستاروں میں ان تین باتوں کے سوا اور کوئی غرض بیان کی تو اس نے خطا کی، اپنا حصہ ضائع کیا اور پھر اس چیز میں تکلف کیا جس کو وہ نہیں جانتا (یعنی آسمان کی چیزوں کے بارے میں جو حقوق ہیں ان کا علم قرآن و سنت کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے حاصل ہونا ممکن نہیں اور جب قرآن و سنت میں ستاروں کی غرض ان تین باتوں کے علاوہ اور کوئی بیان نہیں کی گئی ہے تو مذکورہ باتوں کے علاوہ کوئی اور غرض بیان کرنا ایسی بات کا بیان کرنا ہے جس کا معلوم ہونا متصور ہی نہیں ہے۔! اس روایت کو بخاری نے بغیر سند کے نقل کیا ہے اور رزین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اس نے اس چیز کا تکلف کیا جو اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اور اس چیز میں تکلف کیا (یعنی اس چیز کو جاننے کا دعوی کیا) جس کا اس کو علم نہیں ہے اور اس چیز میں تکلف کیا جس کے علم سے انبیاء اور فرشتے عاجز رہے ہیں۔ ربیع نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ قسم ہے اللہ کی! اللہ تعالیٰ نے ستارے میں نہ تو کسی کی زندگی (یعنی پیدائش) مقرر کی ہے نہ کسی کا رزق یعنی مال و جاہ وغیرہ اور نہ کسی کی موت! اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ کاہن اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹی افتراء پردازی کرتے ہیں اور ستاروں کے طوع و غروب ہونے کو کسی واقعہ و حادثہ کی علت قرار دیتے ہیں!۔

تشریح
اپنا حصہ ضائع کیا کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اس طرح لایعنی باتوں اور بیکار امور میں مبتلا کیا کہ جن کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں حاصل ہوتا ہے اور نہ آخرت میں حاصل ہونے والا ہے۔ اس طرح اس نے گویا اپنی عمر عزیز کا قیمتی حصہ گنوایا۔
Top