مشکوٰۃ المصابیح - عقیقے کا بیان - حدیث نمبر 4061
عن بريدة قال : كنا في الجاهلية إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاة ولطخ رأسة بدمه فلما جاء الإسلام كنا نذبح الشاة يوم السابع ونحلق رأسه ونلطخه بزعفران . رواه أبو داود وزاد رزين : ونسميه
عقیقہ کا دن
حضرت بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہمارا یہ دستور تھا کہ جب ہم میں سے کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ بکری ذبح کرتا اور اس ( بکری) کا خون اس ( لڑکے) کے سر پر لگاتا، لیکن جب اسلام کا زمانہ آیا، تو ہم ( بچے کی پیدائش کے) ساتویں دن بکری ذبح کرتے، اس کا سر مونڈتے اور اس کے سر پر زعفران لگاتے ( ابوداؤد) اور زرین کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ہم ( ساتویں ہی دن) اس کا نام رکھتے۔

تشریح
واضح رہے کہ اکثر احادیث کے بموجب بچہ کا عقیقہ اس کی پیدائش کے ساتویں دن ہونا چاہئے اور حضرت امام شافعی وحضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ اگر ساتویں دن عقیقہ کرنا ممکن نہ ہو سکے تو پھر چودھویں دن کیا جائے، اگر چودھویں دن بھی نہ کرسکے تو اکیسویں دن، ورنہ اٹھائیسویں دن، پھر پینتیسویں دن علی ہذا القیاس۔ ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنا عقیقہ ظہور نبوت کے بعد کیا تھا، کیوں کہ آپ ﷺ کو یہ علم نہیں ہوسکا تھا کہ پیدائش کے دن آپ ﷺ کا عقیقہ ہوا تھا یا نہیں۔ لیکن اول تو اس روایت کی اسناد ضعیف ہے، دوسرے معنوی طور پر بھی یہ روایت بعد سے خالی نہیں ہے۔ حضرت امام مالک کے نزدیک عقیقہ کی ہڈیاں توڑنی درست نہیں ( بلکہ گوشت نکال کر ہڈیوں کو دفن کردیا جائے، جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک اس کی ہڈیاں توڑنا درست ہے۔ نیز شوافع کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر عقیقہ کا گوشت پکا کر صدقہ کیا جائے تو بہتر ہے اور اگر حلاوت یعنی لڑکے کے اچھے اخلاق و طوار کے ساتھ تفاول کے پیش نظر اس گوشت کو کوئی میٹھی چیز پکا کر صدقہ کی جائے تو اور بہتر ہے۔
Top