مشکوٰۃ المصابیح - علم کا بیان - حدیث نمبر 245
وَعَنْ عَبْداﷲِ بْنِ عَمْرِو اَنَّ رَسُْولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ بِمَجْلِسَیْنِ فِی مَسْجِدِہٖ فَقَالَ کِلَا ھُمَا عَلَی خَیْرِ وَاَحَدُھُمَا اَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِہٖ اَمَّا ھٰؤُلَآءِ فَیَدْعُوْنَ اﷲَ وَیَرْغَبُوْنَ اِلَیْہٖ فَاِنْ شَآءِ اَعْطَاھُمْ وَاِنْ شَآءَ مَنَعَھُمْ وَاَمَّا ھٰؤُلَآءِ فَیَتَعَلَّمُوْنَ الْفِقْہَ اَوِالْعِلْمَ وَیُعَلِّمُوْنَ الْجَاھِلَ فَھُمْ اَفْضَلُ وَاِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلَّمًا ثُمَّ جَلَسَ فِیْھِمْ۔ (رواہ لدارمی)
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
اور حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ کا گزر دو مجلسوں پر ہوا، جو مسجد نبوی میں منعقد تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ دونوں بھلائی پر ہیں لیکن ان میں سے ایک (نیکی میں) دوسرے سے بہتر ہے۔ ایک جماعت عبادت میں مصروف ہے، اللہ سے دعا کر رہی ہے اور اس سے اپنی رغبت کا اظہار کر رہی ہے (یعنی حصول مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف امید ہے اور حصول مقصد خواہش الہٰی پر موقوف ہے) لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور اگر چاہے نہ دے اور دوسری جماعت فقہ یا علم حاصل کر رہی ہے اور جاہلوں کو علم سکھا رہی ہے، چناچہ یہ لوگ بہتر ہیں اور میں بھی معلّم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ خود بھی ان میں بیٹھ گئے۔ (دارمی)

تشریح
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ صحابہ کی دو جماعتیں الگ الگ بیٹھی ہوئی ہیں ایک جماعت تو ذکر و دعا میں مشغول تھی اور دوسری جماعت مذاکرہ علم میں مشغول تھی آپ ﷺ نے ان دونوں میں سے اس جماعت کو بہتر قرار دیا جو مذاکرہ علم میں مشغول تھی اور پھر نہ صرف یہ کہ زبان ہی سے ان کی فضیلت کا اظہار فرمایا بلکہ خود بھی اس جماعت میں بیٹھ کر علماء کی مجلس کو مزید عزّت و شرف کی دولت بخشی۔ علم اور عالموں کی اس سے زیادہ اور کیا فضیلت ہوسکتی ہے کہ سردار انبیاء ﷺ نے عابدوں کی مجلس کو چھوڑ کر عالموں ہی کی ہم نشینی اختیار فرمائی ہے اور اپنے آپ کو ان ہی میں سے شمار کیا گدایان را ازیں معنی خبر نیست کہ سلطان جہاں باما ست امروز
Top