مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5282
وعن أبي بكرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنها ستكون فتن ألا ثم تكون فتن ألا ثم تكون فتنة القاعد خير من الماشي فيها والماشي فيها خير من الساعي إليها ألا فإذا وقعت فمن كان له إبل فليلحق بإبله ومن كان له غنم فليلحق بغنمه ومن كانت له أرض فليلحق بأرضه فقال رجل يا رسول الله أرأيت من لم يكن له إبل ولا غنم ولا أرض ؟ قال يعمد إلى سيفه فيدق على حده بحجر ثم لينج إن استطاع النجاء اللهم هل بلغت ؟ ثلاثا فقال رجل يا رسول الله أرأيت إن أكرهت حتى ينطلق بي إلى أحدالصفين فضربني رجل بسيفه أو يجيء سهم فيقتلني ؟ قال يبوء بإثمه وإثمك ويكون من أصحاب النار رواه مسلم .
فتنوں کے ظہور کے وقت گوشہ عافیت میں چھپ جاؤ
حضرت ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عنقریب فتنوں کا ظہور ہوگا، یاد رکھو پھر فتنے پیدا ہوں گے اور یاد رکھو ان فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ (یعنی مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی اور خونریزی کا حادثہ پیش آئے گا، اس فتنہ میں بیٹھا ہوا شخص چلنے والے شخص سے بہتر ہوگا اور چلنے والا شخص اس فتنہ کی طرف دوڑنے والے شخص سے بہتر ہوگا۔ پس آگاہ رہو! جب وہ فتنہ پیش آئے تو جس شخص کے پاس جنگل میں اونٹ ہوں اوہ اپنے اونٹوں کے پاس جنگل میں چلا جائے جس شخص کے بکریاں ہوں وہ بکریوں کے پاس چلا جائے اور جس شخص کے پاس اس فتنہ کی جگہ کہیں دور کوئی زمین ومکان وغیرہ ہو وہ اپنی اس زمین پر یا اس مکان میں چلا جائے۔ (حاصل یہ کہ جس جگہ وہ فتنہ ظاہر ہو وہاں نہ ٹھہرے بلکہ اس جگہ کو چھوڑ کر کہیں دور چلا جائے اور گوشہ عافیت پکڑ لے یا اس فتنہ سے غیر متوجہ ہو کر اپنے کاروبار میں مشغول ومنہمک ہوجائے ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر کسی شخص کے پاس نہ اونٹ ہوں نہ بکریاں اور نہ کسی دوسری جگہ کوئی زمین ومکان وغیرہ ہو جہاں وہ جا کر گوشہ عافیت اختیار کرے اور اس فتنہ کی جگہ سے دور رہ سکے تو اس کو کیا کرنا چاہئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اس کو چاہئے کہ وہ اپنی تلوار کی طرف متوجہ ہو اور اس کو پتھر پر مار کر توڑ ڈالے۔ (یعنی اس کے پاس جو بھی آلات حرب اور ہتھیار ہوں ان کو بےکار اور ناقابل استعمال بنا دے تاکہ اس کے دل میں جنگ وپیکار کا خیال ہی پیدا نہ ہو اور وہ مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدل کے اس فتنہ میں شریک ہی نہ ہو سکے۔ یہ حکم اس لئے ہے کہ جس لڑائی میں دونوں طرف سے مسلمان برسرپیکار ہوں اور ایک دوسرے کی خونریزی کر رہے ہوں، اس میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ اور پھر اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ فتنہ کی جگہ سے بھاگ سکے تو جلد نکل بھاگے۔ تاکہ وہ اس فتنہ کے اثرات سے محفوظ رہ سکے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے اللہ میں نے تیرے احکام تیرے بندوں کو پہنچا دیئے۔ یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین بار فرمائے ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! مجھ یہ بتائیے کہ اگر مجھے مجبور کر کے یعنی زور و زبردستی سے لڑنے والے دونوں فریق میں سے کسی ایک فریق کی صف میں لے جایا جائے اور وہاں سے کسی شخص کی تلوار سے مارا جاؤں یا کسی کا تیر آ کر مجھ کو لگے جو مجھے موت کی آغوش میں پہنچا دے تو اس صورت میں قاتل اور مقتول کا کیا حکم ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تمہارا وہ قاتل اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے گا اور دوزخیوں میں شمار ہوگا۔ (مسلم)

تشریح
علماء اسلام کے ہاں یہ ایک طویل بحث ہے کہ اگر افتراق و انتشار کا کوئی فتنہ ابھر آئے اور کچھ مسلمان دو فریق میں تقسیم ہو کر آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں تو اس وقت باقی مسلمانوں کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے؟ اہل علم کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ افتراق و انتشار اور مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی کی صورت میں کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ قتل و قتال میں شریک ہو، بلکہ جب مسلمانوں کے دو فریق آپس میں جنگ وجدال کریں تو اس میں شامل ہونے سے احتراز کرنا اور دونوں فریق سے یکسوئی وغیرہ جانب داری اختیار کر کے گوشہ عافیت پکڑنا واجب ہے۔ ان حضرات کی دلیل مذکورہ بالا ارشاد گرامی اور اس طرح کی دوسری احادیث ہیں۔ مشہور صحابی حضرت ابوبکر ؓ اور بعض دوسرے صحابہ ؓ کا مسلک بھی یہی تھا۔ حضرت ابن عمر ؓ کا قول یہ ہے کہ خونریزی کی ابتدا خود نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی خونریزی کرے تو اس کا دفعیہ کرنا لازم ہے جمہور صحابہ ؓ اور تابعین کا مسلک یہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں باہمی پھوٹ پڑجائے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو کر قتل و قتال کرنے لگیں تو اس فریق کی حمایت کرنی چاہئے جو حق و انصاف پر ہو اور جو فریق ظلم وناانصافی کی راہ اختیار کئے ہوئے ہو یا مسلمانوں کے امام و سردار سے بغاوت کر کے ملی افتراق و انتشار کا سبب بن رہا ہو اس کے خلاف قتال کرنا چاہئے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوجائے گا اور بغاوت و سرکشی کرنے والوں کی ہمت افزائی ہوگی۔ اس مسلک کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔ آیت (وَاِنْ طَا ى ِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا) 49۔ الحجرات 9) چناچہ آیت کریمہ اس امر کو واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ جب مسلمانوں کے دو دو فریق باہمی قتل و قتال اور خونریزی میں مبتلا ہوں تو ان کے درمیان صلح و صفائی کرانی چاہئے اور دونوں فریق کو اس فتنہ و انتشار سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہے۔ لیکن اگر ان دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے فریق کے تئیں حد سے تجاوز کرے اور اس فتنہ کو جاری رکھنے اور بھڑکانے میں مصروف رہے تو پھر اس فریق کے خلاف کہ جو حد سے متجاوز اور فتنہ کو بھڑکانے کا باعث بن رہا ہو تلوار اٹھا لینی چاہئے اور اس کے ساتھ قتال کرنا چاہئے تاکہ وہ راہ حق پر آجائے۔ اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے گا کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ اس شخص پر دو گناہ ہوں گے ایک گناہ تو اس کے اس عمل کا کہ اس نے حقیقت میں تمہیں مارا اور دوسرا تمہارا گناہ بایں اعتبار کہ اگر بالفرض تم اس کو مارتے اور اس کا گناہ تمہیں ہوتا تو گویا وہ گناہ بھی اس کے سر ڈال دیا جائے گا۔ پس از راہ زجر و توبیخ اس امر کو واضح کیا گیا ہے کہ اس فتنہ میں کسی ایسے مسلمان کو قتل کرنے کا گناہ کہ جو اس جنگ سے بیزار ہو مگر مجبورا اس میں شریک ہوگیا ہو الضاعف یعنی دو گناہ ہو کر سر پڑے گا۔ اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس شخص پر دو گناہ ہوں گے، ایک گناہ تو اس بغض و عداوت کا جو وہ مسلمانوں سے رکھتا تھا اور جس کے سبب تمہارا قتل ہوا اور دوسرا گناہ تمہارے قتل کا جو اس سے سرزد ہوا۔ اور دوزخیوں میں شمار ہوگا اس کے بعد دوسرا جملہ یہ ہونا چاہئے تھا۔ کہ اور تم جنتیوں میں سے ہوگے۔ لیکن حضور ﷺ نے دوسرا جملہ ارشاد نہیں فرمایا کیونکہ مذکورہ پہلے جملہ سے یہ مفہوم خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔
Top