مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5293
وعن حذيفة قال قلت يا رسول الله أيكون بعد هذا الخير شر كما كان قبله شر ؟ قال نعم قلت فما العصمة ؟ قال السيف قلت وهل بعد السيف بقية ؟ قال نعم تكون إمارة على أقذاء وهدنة على دخن . قلت ثم ماذا ؟ قال ثم ينشأ دعاة الضلال فإن كان لله في الأرض خليفة جلد ظهرك وأخذ مالك فأطعه وإلا فمت وأنت عاض على جذل شجرة . قلت ثم ماذا ؟ قال ثم يخرج الدجال بعد ذلك معه نهر ونار فمن وقع في ناره وجب أجره وحط وزره ومن وقع في نهره وجب وزره وحظ أجره . قال قلت ثم ماذا ؟ قال ثم ينتج المهر فلا يركب حتى تقوم الساعة وفي رواية هدنة على دخن وجماعة على أقذاء . قلت يا رسول الله الهدنة على الدخن ما هي ؟ قال لا ترجع قلوب أقوام كما كانت عليه . قلت بعد هذا الخير شر ؟ قال فتنة عمياء صماء عليها دعاة على أبواب النار فإن مت يا حذيفة وأنت عاض على جذل خير لك من أن تتبع أحدا منهم . رواه أبو داود .
آنے والے زمانوں کے بارے میں پیشگوئی
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیا اس خیر کے بعد شر پیدا ہوگا جیسا کہ اب سے پہلے شر کا دور دورہ تھا (یعنی جس طرح آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے کفر و شرک اور برائیوں کا اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور پھر آپ ﷺ کے نور نبوت نے بدی و برائی کی تاریکی کو ختم کر کے نیکی اور بھلائی کا اجالا پھیلایا، اسی طرح کیا خیر و بھلائی کے اس زمانے کے بعد شر و برائی کا زمانہ بھی آئے گا) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں (اس کے بعد پھر بدی و برائی کا زمانہ بھی آئے گا) میں نے عرض کیا کہ پھر اس وقت بچنے کی کیا سبیل ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تلوار (یعنی اس فتنہ سے حفاظت، تلوار آزمائی کے ذریعے حاصل ہوگی یا یہ مراد ہے کہ اس فتنہ سے بچنے کا راستہ یہی ہوگا کہ تم اس فتنہ کو پیدا کرنے والے لوگوں کو سر تلوار سے اڑا دو ) میں نے عرض کیا کہ پھر اس تلوار کے بعد اہل اسلام باقی رہیں (یعنی جب مسلمان بدی اور برائی کی طاقتوں کو ختم کرنے کے لئے تلوار اٹھائیں گے اور قتل و قتال کریں گے تو کیا اس کے بعد اس زمانے کے مسلمانوں میں اتنی طاقت واجتماعیت باقی رہ جائے گی کہ وہ امانت ودیانت کے ساتھ اپنی سرداری وحاکمیت قائم کرلیں اور لوگ اس کی قیادت وامارت پر اتفاق کرلیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں! امارت یعنی حکومت و سلطنت تو قائم ہوجائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہوگی اور صلح کی بنیاد کدورت پر ہوگی۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بعد گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے۔ اگر اس وقت زمین پر کوئی خلیفہ یعنی امیر و بادشاہ ہو تو خواہ وہ تیری پیٹھ پر مارے ہی کیوں نہ اور تیرا مال کیوں نہ لے لے (یعنی وہ امیر بادشاہ اگرچہ تمہیں ناحق ستائے تم پر ظلم وستم ڈھائے اور تمہارا مال و اسباب چھین لے لیکن تم اس کی اطاعت سے منہ نہ پھیرنا تاوقتیکہ وہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف کوئی کام کرنے کو نہ کہے اور حکم اس لئے دیا گیا ہے تاکہ دین وملت میں افتراق و انتشار اور مملکت میں بدامنی و فساد پیدا نہ ہو۔ اور اگر کوئی خلیفہ یعنی امیر و بادشاہ نہ ہو تو تمہاری موت ایسی حالت میں آنی چاہئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس کے بعد دنیا اور زیادہ فتنہ و انتشار اور برائیوں کی طرف بڑھتی رہے گی اور مسلمان بتدریج دینی وملی طور پر اور دنیاوی اعتبار سے بھی زوال پذیر ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ حضرت مہدی کے زمانہ میں دجال کا ظہور ہوگا جس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگی اور آگ کی خندق پس جو شخص اس کی نہر میں پڑے گا اس کا گناہ اس کے لئے باردوش بنے گا اور اس کا اجر جو اس نے اچھے عمل کر کے حاصل کئے ہوں گے جاتا رہے گا۔ حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ گھوڑے کا بچہ جنوایا جائے گا اور وہ سواری نہیں دینے پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ اور ایک روایت میں (امارت تو قائم ہوجائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہوگی الخ) کے بجائے یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کدورت پر صلح ہوگی یعنی اس وقت لوگ ظاہر میں تو صلح صفائی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن ان کے باطن میں کدورت ہوگی۔ اور وہ کسی معاہدہ و فیصلہ پر دلوں کی ناخوشی اور بخشش کے ساتھ متفق ومجتمع ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کدورت پر صلح سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دل اس حالت پر نہیں ہوں گے جس پر پہلے تھے (یعنی جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں لوگوں کے دل بغض وکینہ سے صاف رہا کرتے تھے، وہ جو بات کہا کرتے یا جو معاملہ کرتے تھے اس میں صدق دلی شامل ہوتی تھی۔ اس طرح کے پاک وصاف دل اس وقت لوگوں کے نہیں ہوں گے کہ زبان سے کچھ کہیں گے معاملہ کچھ کریں گے اور دل میں کچھ اور رکھیں گے۔ یا یہ مراد ہے کہ لوگوں میں باہمی صلح و صفائی ہوجانے کے باوجود، ان کے دل اس طرح پاک وصاف نہیں ہوں گے جس طرح ایک دوسرے کے خلاف بغض وعناد میں مبتلا ہونے اور کدورت پیدا ہونے سے پہلے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا اس بھلائی کے بعد کہ جو آپس کے نفاق کدورت کے بعد مذکورہ باہمی مصالحت ومفاہمت کی صورت میں ظاہر ہوگی اور جو اگرچہ برائی کی آمیزش سے پوری طرح صاف نہیں ہوگی کسی اور برائی کا ظہور ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں، اس کے بعد پھر برائی کا ظہور ہوگا اور وہ ایک ایسے بڑے فتنہ کی صورت میں ہوگا جو اندھا اور بہرا ہوگا (یعنی وہ فتنہ لوگوں کی عقل وخرد اور نیکی وبد کی قوت تمیز پر اس طرح اثر انداز ہوجائے کہ وہ حق اور سچائی کو نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے۔ گویا فتنہ کی طرف اندھے پن اور بہرے پن کی نسبت مجازاً ہے اصل مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ لوگ اس فتنہ میں مبتلا ہو کر بدی اور برائی کی انتہائی حدوں تک پہنچ جائیں گے اور اس کا نتیجہ، جیسا کہ آگے فرمایا جا رہا ہے، یہ ہوگا کہ اس فتنہ کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوجائیں گے یعنی لوگ محض اس فتنہ میں مبتلا ہی نہیں ہوں گے بلکہ ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہوجائے گی جو اس فتنہ کو ہوا دے گی اور دوسروں کے اس فتنہ میں مبتلا ہونے کا باعث بنے گی اور اس جماعت کے لوگوں کا یہ عمل ایسا ظاہر کرے گا جیسے کہ وہ دوزخ پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اس دوزخ کی طرف بلا رہے ہیں چناچہ بلانے والے اور ان کے بلاوے کو قبول کرنے والے سب ہی دوزخ میں جائیں گے۔ پس اے حذیفہ اس وقت تمہاری موت اگر اس حالت میں آئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ تم اہل فتنہ میں سے کسی کی اتباع و پیروی کرو۔

تشریح
قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جس فتنہ سے بچاؤ کا ذریعہ تلوار کو قرار دیا تھا اس کا مصداق وہ لوگ ہیں جو حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ خلاف میں اسلام سے پھرگئے تھے اور اپنے ارتداد و بغاوت کے ذریعہ ایک بڑے فتنہ کا باعث بننے والے تھے لیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نہایت تدبر وہوشیاری کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور طاقت کے ذریعے ان کو دبایا۔ اقذاء اصل میں قذی کی جمع ہے اور قذاۃ کا معنی اس کیچڑ اور تنکے کے ہیں جو آنکھ میں یا پانی وشربت وغیرہ میں پڑجائے۔ پس حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت امارت و حکومت تو قائم ہوجائے گی اور مسلمانوں کا امیر و خلیفہ بھی ہوگا لیکن لوگ اخلاص وحسن نیت کے ساتھ اپنی اس امارت و حکومت کے تئیں وفاداری نہ رکھیں گے بلکہ ان کے دلوں میں بغض و عداوت، عدم وفاداری اور مخالفت ومخاصمت کے جذبات ہوں گے، جیسا کہ اگر کسی کی آنکھ میں کوئی ریزہ یا تنکا پڑجائے تو گو وہ باہر سے اچھی بچھی معلوم ہوتی ہو مگر اس کے اندر سخت شوزش اور دکھن ہوتی ہے اسی طرح وہ لوگ گو ظاہر میں اپنی امارت و حکومت کے وفادار و بہی خواہ نظر آئیں گے مگر ان کے اندر غیر وفاداری اور مخالفت و عداوت بھری ہوگی اور قاضی نے اس کے دوسرے معنی بیان کئے ہیں اور وہ یہ کہ اس وقت مسلمانوں کی حکومت وامارت تو قائم ہوگی لیکن وہ امارت و حکومت، بعض بدعتوں اور دین مخالف کاروائیوں کے ذریعے اپنی حیثیت کو بگاڑے رکھے گی۔ ہدنۃ مصالحت کے مفہوم میں ہے اور اصل میں اس کے معنی سکون و آرام اور فراغت کے ہیں اور دخن دخان کے مفہوم میں ہے جس کے معنی ہیں دھواں اس جملے ہدنۃ علی دخن (صلح کی بنیاد کدور پر ہوگی) کا مطلب بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اس وقت باہم مخاصمت و مخالفت رکھنے والے فریقوں کے درمیان جو مصالحت ہوگی وہ فریب ونفاق اور بدنیتی کے ساتھ ہوگی کہ اس اعتبار سے یہ جملہ ماقبل کے جملہ کو مؤ کدہ کرنے کے لئے ہے۔ اور شارحین حدیث نے بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مصداق وہ مصالحت ومفاہمت ہے جو حضرت امام حسن اور حضرت امیر معاویہ ؓ کے سپرد کردی تھی اور انہوں نے یعنی امیر معاویہ ؓ نے اپنی امرت وسیادت کو مستحکم کرلیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض حضرات خصوصا مورخین نے جو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امیر معاویہ، حضرت امام حسن سے صلح و صفائی کرلینے کے بعد خلیفہ ہوئے تھے۔ اس معنی میں صحیح نہیں ہے کہ امام حسن واقعۃ حضرت امیر معاویہ ؓ کو خلافت کا اپنے سے زیادہ مستحق واہل جانتے تھے اس لئے انہوں نے صلح کر کے ان کے حق میں خلاف سے دستبرداری دے دی تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے سیاسی عناصر نے حضرت امام حسن کے خلاف جس طرح کا ماحول بنادیا تھا اور ان دونوں عظیم المرتبت شخصیتوں کی باہمی آویزش کی وجہ سے دین وملت کو جو نقصان پہنچنے والا تھا، حضرت امام موصوف نے اس سے بچنے کے لئے بادل نخواستہ مصالحت کی اور اپنی خلافت و حکومت کو دین وملت کے وسیع تر مفاد پر ترجیح دینے کی بجائے اس سے دستبرداری ہی کو بہتر سمجھا۔ گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے امراء اور ارباب حکومت میں سے ایسے لوگوں کی جماعت پیدا ہوگی جو لوگوں کو بدعت و گناہ کی طرف مائل کرے گی اور برائی کے راستے پر لگائے گی۔ کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو کے ذریعے اس امر کی تلقین کرنا مقصود ہے کہ اپنے نازک حالات اور اس طرح کے سخت دین مخالف ماحول میں تمہیں چاہئے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے کہیں گوشہ نشین ہوجاؤ اور اپنے آپ کو فتنہ و فساد سے بچا کر اپنی باقی زندگی کو کسی ایسی جگہ گزار دو جہاں تک اس فتنہ کے برے اثرات تم تک نہ پہنچ سکیں یہاں تک کہ اگر تمہیں ان نازک حالات اور اس پر فتن ماحول سے دور رہنے کے لئے کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے اور وہاں اتنی سخت اور صبر آزما زندگی گزارنی پڑے کہ گھاس پھوس اور لکڑی چبانے تک کی نوبت آجائے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ والا فمت کا تعلق واطعہ سے ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس امیر و بادشاہ کی طرف سے تمہارے حق میں کتنے ہی سخت حالات پیدا کر دئیے جائیں تم اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ نہ پھیرنا، کیونکہ اگر تم اس امیر و بادشاہ کی اطاعت نہیں کرو گے تو پھر تمہیں اور زیادہ شدید حالات میں اور کہیں زیادہ سخت اذیت کے ساتھ مرنا پڑے گا۔ نیز بعض نسخوں میں فمت کی بجائے قمت کا لفظ ہے جو لفظ قیام سے ماضی کا صیغہ ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایسا نہ ہو یعنی تم اس امیر و بادشاہ کے ظلم وستم کی وجہ سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے معذور ہو تو پھر نکل کھڑے ہو اور کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لے لو۔ (یعنی اس امیر و بادشاہ کے زیر حکومت علاقہ سے نکل جاؤ اور کہیں دوسری جگہ جا کر پناہ گزیں ہوجاؤ۔ جس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگی اور آگ کی خندق کے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ دونوں چیزیں حقیقی نہیں بلکہ محض خیالی ہوں گی اور ان کا تعلق سحر و طلسم سے ہوگا یعنی بظاہر نظر تو ایسا آئے گا کہ وہ دجال اپنے ساتھ پانی کی نہر اور آگ کی خندق لئے پھر رہا ہے لیکن حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہوگی، جیسا کہ شعبدہ باز نظر بندی کر کے کچھ کا کچھ دکھا دیتے ہیں، چناچہ آگے کی عبارت فمن وقع فی فارۃ میں دجال کی طرف آگ کی نسبت سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں چیزیں محض جادوئی اور طلسماتی ہوں گی۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس کے ساتھ پانی کی جو نہر ہوگی وہ نتیجہ و حقیقت کے اعتبار سے آگ ہوگی اور آگ کی خندق ہوگی وہ نتیجہ و حقیقت کے اعتبار سے پانی ثابت ہوگا۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے اس جملے کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات تو یہی ہے کہ یہ عبارت حقیقی معنی پر محمول ہے، یعنی اس کے ساتھ واقعۃ پانی کی نہر اور آگ کی خندق ہوگی، لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ ان چیزوں سے مراد لطف وقہر اور وعدہ وعید ہو، یعنی پانی کی نہر سے مراد تو یہ ہے کہ اس کے پاس اپنے متعلقین کے لئے زبردست ترغیبات و لالچ اور آسائش و راحت کے سامان ہوں گے اور آگ کی خندق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین و منکرین کے لئے ڈرانے، دھمکانے اور مصیبت واذیت میں مبتلا کرنے کے ذرائع رکھے گا، پس جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ دجال کی موافقت و تابعداری نہیں کرے گا وہ اس کو آگ میں ڈالے گا اور طرح طرح کی سختیوں اور آلام میں مبتلا کرے گا) اور جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا وہ اللہ کے دین پر ثابت قدم رہنے اور اللہ کی رضاء کی خاطر ہر مصیبت پر صبر کرنے کی وجہ سے بڑے بڑے اجر پائے گا اور اس نے پہلے جو گناہ کئے ہوں گے وہ دھل جائیں گے، اسی طرح جو شخص دجال کی موافقت و تابعداری کرے گا اس کو وہ اپنی میں ڈالے گا (یعنی اس کو طرح طرح کی آسائش اور راحت زیادہ سے زیادہ دنیاوی فائدے پہنچائے گا، چناچہ جو شخص اس کے پانی میں جائے گا وہ دنیاوی آسائش و راحت اور یہاں کی زندگانی کی محبت کے سبب اس پر ایمان لانے، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی وجہ سخت وبال مول لے لے گا اور اس نے پہلے جو اچھے کام کئے ہوں گے ان سب کا اجر ضائع ہوجائے گا۔ ثم ینتج المہر الخ میں لفظ ینتج انتج کا صیغہ مجہول ہے نہ کہ یہ انتاج سے ہے اور نتج کے معنی ہیں حاملہ کی خبر گیری کرنا یہاں تک کہ وہ جنے۔ جب کہ انتاج کے معنی ہیں ولادت کا وقت آجانا۔ پس علماء نے لکھا ہے کہ یہاں نتج اصل میں تولید کے معنی استعمال ہوا ہے یعنی لوگ اپنی گھوڑیوں کے ہاں بچہ ہونے کی تدابیر اختیار کریں گے اور بچہ جننے کے وقت گھوڑیوں کی دیکھ بھال اور خدمت کریں گے جیسا کہ دایہ کسی عورت کے ہاں ولادت کے وقت خدمت انجام دیتی ہے اور مہر کے معنی بچھڑنے کے ہیں اور اگر یہ لفظ ۃ کے ساتھ یعنی مہرۃ ہو تو اس کے معنی بچھڑی کے ہوتے ہیں۔ نیز یرکب کے معنی ہیں سواری دینے کی عمر کو پہنچ جانا یا سواری کے قابل ہوجانا۔ بہرحال جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی گھوڑیوں سے بچے جنوانے کی تدابیر کریں گے تاکہ ان کو سواری کے کام میں لاسکیں لیکن جب ان کی گھوڑیاں بچے جنیں گی تو وہ بچے ابھی سواری کے قابل بھی نہیں ہونے پائیں گے کہ قیامت آجائے گی، تو اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کی طرف اشارہ کرنا ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول سے قیامت کے دن تک گھوڑوں کی سواری کا موقع ہی نہیں آئے گا اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ اس زمانے میں کفار کا وجود ہی نہیں ہوگا کہ جن سے جنگ کرنے کے لئے گھوڑوں کی سواری کی ضرورت پیش آئے لیکن یہ مراد لینا اور مذکورہ تاویل کرنا اس زمانے تو صحیح تھا جب کہ گھوڑوں کی سوار صرف میدان جنگ تک محدود رہتی تھی اور گھوڑے کا اصل مصرف کفار کے مقابلے پر لڑنے کے لئے ان کو استعمال کرنا سمجھا جاتا تھا، ظاہر ہے کہ موجودہ حالت میں یہ بات کچھ زیادہ وزن دار معلوم نہیں ہوتی۔ یا اس جملے کے ذریعے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ دجال کے ظاہر ہوجانے کے بعد سے قیامت آنے تک کا زمانہ طویل نہیں ہوگا، بہت مختصر ہوگا، گویا اس وقت سے قیامت آنے تک میں بس اتنا عرصہ رہ جائے گا ایک بچھڑے کے پیدا ہونے کے وقت سے اس سواری کے قابل ہونے تک کے درمیان لگتا ہے۔ یہ وضاحت نہ صرف یہ کہ زیادہ صاف اور قرین قیاس ہے بلکہ ان احادیث کے مفہوم کے مطابق بھی ہے جو اس سلسلے میں منقول ہیں۔
Top