مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5301
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت کا سانحہ اور اس کی تفصیل
یہ بات تو طیبی نے لکھی ہے لیکن بعد کے علماء میں سے حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے اس حدیث میں مذکورہ فتنوں کے مصداق کا تعین کیا ہے چناچہ انہوں نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فتنہ احلاس کے ذریعے جس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جب کہ وہ یزید بن معاویہ کی خلافت کے اعلان کے بعد اس کی بیعت سے گریز کر کے مع اہل و عیال مدینہ سے نکل گئے اور مکہ آگئے تھے پھر جب ٦٢ ھ میں یزید بن معاویہ نے اپنے خلاف اہل مدینہ کی تحریک کو کچلنے کے لئے مسلم بن عقبہ کی کمان میں شامیوں کی ایک بڑی فوج مدینہ کی طرف روانہ کی تو مسلم نے اس شہر مقدس میں پہنچ کر بڑی تباہی پھیلائی اور اہل مدینہ کا قتل عام کرایا۔ یہ واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے، مسلم نے شامیوں کی یہ فتح یاب فوج لے کر پھر مکہ کا رخ کیا۔ مسلم اگرچہ خود مکہ تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ وہ راستے ہی میں مرگیا تھا، البتہ اس کی فوج حصین بن نمیر کی سر کردگی میں مکہ پہنچ گئی اور اس نے ایک دن کی جنگ کے بعد مکہ کا محاصرہ کرلیا، حصین بن نمیر نے کوہ ابن قیس پر منجنیق نصب کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کا سلسلہ بھی شروع کردیا اس محاصرے اور سنگ باری کے دوران کہ جس کا سلسلہ ایک ماہ سے بھی زائد عرصے تک جاری رہا، اہل مکہ کو بڑی سخت تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، اتفاق کی بات کہ اسی اثناء میں دمشق میں یزید کا انتقال ہوگیا اور ابن نمیر نے اس خبر کو سن کر محاصرہ اٹھا لیا اور اپنی فوج کو لے کر دمشق کی طرف واپس روانہ ہوگیا، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت نہ صرف پورے حجاز میں قائم ہوگئی، بلکہ عراق اور مصر تک کے لوگوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کرلیا یہاں تک کہ یزید بن معاویہ کے جانشین معاویہ بن یزید کی تقریبا دو ماہ کی مختصر خلافت کے بعد جب کہ اس کا انتقال ہوگیا تھا تو حضرت عبداللہ بن زبیر پورے عالم اسلام کے خلیفہ تسلیم کر لئے گئے لیکن پھر چھ سات ماہ کے بعد مروان بن حکم نے اپنی سازشوں اور کوششوں میں کامیاب ہو کر شام پر قبضہ جما لیا اور دمشق میں اپنی خلافت کا اعلان کردیا، شام کے بعد مصر اور عراق بھی حضرت زیبر کی خلافت سے نکل گئے اسی دوران مروان بن حکم مرگیا اور اس کا بیٹا عبدالملک بن مروان اس کا جانشین ہوا، عبدالملک نے زبردست جنگی طاقت کے ذریعے تقریبا تمام ہی علاقوں سے حضرت زبیر کی خلافت کو ختم کردیا اور آخر میں حجاج بن یوسف کی کمان میں ایک لشکر جرار مکہ مکرمہ کی طرف روانہ کیا اور ٧٢ ھ کے ماہ رمضان میں حجاج نے شہر مکہ کا محاصرہ کرلیا اور کوہ ابوقبیس پر منجنیق لگا کر سنگ باری شروع کردی اور محاصرہ سنگ باری کا یہ سلسلہ ذی الحجہ تک جاری رہا، اس عرصے میں اہل مکہ کو بڑی زبردست مصیبت و پریشانی اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا حج کے دنوں میں کچھ عرصے کے لئے سنگ باری بند ہوگئی اور حج ختم ہوتے ہی یہ سلسلہ پھر شروع ہوگیا جس کا نشانہ براہ راست خانہ کعبہ تھا جہاں حضرت عبداللہ محصور تھے اور آخری مرحلے پر حضرت عبداللہ بن زبیر نے خانہ کعبہ سے نکل کر محض چند ساتھیوں کے ہمراہ شامیوں کے اس عظیم لشکر پر حملہ کیا اور بڑی بہادری کے ساتھ لڑتے رہے جب وہ چند ساتھی بھی ایک ایک کر کے کام آگئے اور خود ان پر دشمنوں نے چاروں طرف سے پتھروں اور تیروں کی بارش شروع کردی تو دنیا کا یہ عظیم الشان بہادر و متقی انسان داد شجاعت دیتا ہوا بڑی مظلومیت کے ساتھ جمادی الثانی ٧٣ ھ کی ایک خوں آشام تاریخ میں اس طرح شہید ہوا کہ اس وقت میدان جنگ میں بہادری و شجاعت، زہد و عبادت اور ہست و شرافت کے علاوہ کوئی انسان ان کی مبارک لاش پر کف افسوس ملنے والا بھی موجود نہیں تھا۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کا وہ واقعہ ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے فتنہ احلاس کا مصداق قرار دیا ہے۔
Top