مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5308
وعن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال تدور رحى الإسلام لخمس وثلاثين أو ست وثلاثين أو سبع وثلاثين فإن يهلكوا فسبيل من هلك وإن يقم لهم دينهم يقم لهم سبعين عاما . قلت أمما بقي أو مما مضى ؟ قال مما مضى . رواه أبو داود .
ایک پیشین گوئی
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اسلام کی چکی پینتیس برس یا چھتیس برس یا سینتیس برس تک گھومتی رہے گی پھر اگر لوگ ہلاک ہوں گے تو اس راستے پر چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوں گے جس پر چل کر پہلے لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور اگر ان کے دین کا نظام کامل و برقرار رہا تو ان کے دینی نظام کی تکمیل و برقرار کا وہ سلسلہ ستر برس تک رہے گا۔ حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر پوچھا کہ یہ سترہ برس بقیہ میں سے ہوں گے یا اس عرصے سمیت ہوں گے جو گزرا (یعنی آپ ﷺ نے دین کے نظام کی تکمیل و برقرار کے لئے جس ستر سال کے عرصے کا ذکر فرمایا ہے آیا اس سے ستر سال کا وہ عرصہ مراد ہے جس کی اتبداء ٣٥ یا ٣٦ سال کا مذکورہ زمانہ گزرنے کے بعد ہوگی، یا وہ مذکورہ سال بھی اس ستر سال کے عرصے میں شامل ہیں اور اس کی ابتداء اسلام کے ابتدائی زمانہ یا ہجرت کے وقت سے مراد لی گئی ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا یہ مذکورہ سال بھی ان ستر سالوں میں شامل ہیں اور ستر سال کا عرصہ اس عرصہ سمیت ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانہ یا ہجرت کے وقت سے اب تک گزر چکا ہے۔ (ابو داؤد)

تشریح
اسلام کی چکی گھومتی رہے گی سے حضور ﷺ کا مطلب یہ ہے تاکہ وہ زمانہ کہ جس میں دین کا نظام مستحکم و استوار رہے گا، احکام شریعت کی بھر پور حکمرانی ہوگی، مسلمانوں کے تمام دینی و دنیاوی معاملات قرآن وست کے مطابق خوش اسلوبی کے ساتھ چلتے رہیں گے اور دین وآخرت کی فتنہ و فساد سے محفوظ ومامون رہے گی، ٣٥ یا ٣٦ سال پر مشتمل ہوگا اور اس زمانے کی ابتداء ہجرت کے سال سے ہے کہ اسلام کے ملی سیاسی ظہور اور ملکی فتوحات کا سلسلہ ہجرت ہی سے شروع ہوتا ہے۔ چناچہ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کا سانحہ اسلام کی تاریخ کا وہ پہلا فتنہ ہے جس نے مسلمانوں کی دینی وملی زندگی کو سخت دھچکا لگایا اور اسلام کی سیاسی طاقت باہمی افتراق و انتشار کی وجہ سے بہت مضمحل ہوگئی۔ یہ فتنہ ٣٥ ھ میں ظاہر ہوا، اس کے بعد ٣٦ ھ میں جنگ جمل ٣٧ ھ میں جنگ صفین کے فتنے پیش آئے، جن سے مسلمانوں کے دین وملی نظام اور سیاسی استحکام کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کے نہایت روح فرسا نتائج نکلے۔ واضح رہے کہ لخمس وثلثین او ست وثلثین او سبع وثلثین (٣٥ برس یا ٣٦ برس یا ٣٧ برس) میں حرف او (بمعنی یا) تنویع کے لئے یا بل (بلکہ) کے معنی میں ہے۔ ٣٥ یا ٣٦ برس کے تعین کے سلسلے میں ایک وضاحت تو وہ ہے جو اوپر بیان کی گئی یعنی ابتداء تو سال ہجرت سے شمار کی جائے اور انتہاء حضرت عثمان ؓ کی شہادت اور پھر جنگ جمل وجنگ صفین کو قرار دیا جائے تو بالترتیب ٣٥ ھ، ٣٦ ھ، ٣٧ ھ کے واقعات ہیں لیکن اس بارے میں ایک احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ کلام اس سال ارشاد فرمایا تھا جب کہ آپ ﷺ کی زندگی کے چند ہی سال باقی رہ گئے تھے اور اگر ان چند سالوں کو خلفاء اربعہ کی مدت خلافت کے ساتھ جوڑا جائے تو ان سب کی مجموعی مدت اتنے ہی سالوں پر مشتمل ہے جو حضور ﷺ نے اس ارشاد گرامی میں ظاہر فرمائی۔ گویا اس قول کے مطابق ٥٣ یا ٦٣ یا ٧٣ سال کا ابتدائی تو اس کو قرار دیا جائے گا، جس میں حضور ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی اور ان سالوں کا آخری سال حضرت علی ؓ کی خلافت کے سال آخر کو قرار دیا جائے گا، لہٰذا دین کے نظام کے استقرار و تکمیل سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ان مذکورہ سالوں میں دین کی پوری طرح محفوظ ومامون رہے گا کہ بدعت اور فکر و جمال کی لغزش تک کو دین میں راہ پانے کا موقع نہیں ملے گا اور ملک وملت کا کوئی بھی کام شارع کے حکم کے خلاف نہیں ہوگا تو پھر مذکورہ سالوں کے تعین کے سلسلے میں یہی وضاحت مناسب تر اور اولیٰ ہوگی اور اگر دین کے استقرار اور تکمیل سے مراد لیا جائے کہ ملک وملت کے تمام کا انتظام وفتنہ و فساد سے پاک ہوں گے خلافت کا مسئلہ خوش اسلوبی اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ طے پاتا رہے گا اور مسلمانوں کے درمیان کوئی محاذ آرائی اور مخالفت وعناد کی صورت پیدا نہیں ہوگی تو پھر مذکورہ سالوں کے تعین میں وہ وضاحت مناسب تر ہوگی جو پہلے نقل کی گئی۔ ایک اور احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مذکورہ سالوں کی ابتداء اس وقت سے لگائی جب کہ آنحضرت ﷺ پر وحی نازل ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا یعنی نبوت کا پہلا سال اس صورت میں ٣٥ برس کی مدت کا اختتام حضرت عمر ؓ کی خلافت کے اختتام پر ہوگا یہ احتمال اس اعتبار سے قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد دین و ایمان کی سلامتی، سنت کی اتباع، جماعتی اتحاد و اتفاق، مسلمانوں کی باہمی قلبی محبت ورواداری اور دین وملت کا اخلاق و سیاسی استحکام جس زمانے میں بت عمدہ اور نہایت خوبی کے ساتھ تھا، وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ ہی خلافت کا زمانہ تھا، حضرت عمر ؓ کے بعد حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں ایک دو سال کے بعد ہی جو صورت پیدا ہوگئی اور دین وملت کے نظم و استحکام کے منافی جو حادثات و واقعات ظاہر ہونے شروع ہوئے وہی ان فتنوں کا باعث جنگی حشر سامانیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو نہایت مکدر کر رکھ دیا۔ پھر اگر لوگ ہلاک ہوں گے الخ کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ سالوں میں دین وملت کے اخلاق و سیاسی نظام میں استحکام و استقرار کے بعد اگر لوگ اپنے دین وملی معاملات میں اختلاف و انتشار کا شکار ہوجائیں دین وآخرت کے امور میں سستی و کوتاہی کا شکار اور گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے لگیں تو سمجھو کہ خطرناک راستے پر پڑگئے ہیں جس پر پچھلی امتوں کے لوگوں نے تباہی و بربادی اور ہلاکت مول لی تھی، چناچہ پچھلی امتوں کے لوگ اسی لئے تباوہ و برباد اور ہلاک کر دئیے گئے تھے کہ انہوں نے کجروی اختیار کرلی تھی، حق سے دور ہٹ گئے تھے، شرع احکام اور اپنے ملی معاملات میں اختلاف و انتشار کا شکار ہوگئے تھے اپنے دین پر عمل کرنے اور اپنے پیغمبر کی تعلیمات کو ماننے میں سستی و کوتاہی اور لاپرواہی برتنے لگے تھے اور گناہ و معصیت سے اجتناب نہیں کرتے تھے۔ واضح رہے کہ جو چیزیں انسان کی ہلاکت و تباہی کا سبب بنتی ہیں اور جن کو اختیار کر کے کوئی شخص ہلاکت میں مبتلا ہوتا ہے یہاں ان ہی اسباب کو ہلاکت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگر ان کے دین کا نظام کامل و برقرار رہا الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان پہلے کی طرح اپنے امیر و خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہے، احکام شریعت اور دینی نظام کو برقرار رکھنے اور ان کی اتباع کرنے پر عامل رہے اور ملی اتحاد و اتفاق کے ذریعے اسلام کی شوکت کو بحال رکھنے میں مصروف رہے تو ان کے دو ملی اور سیاسی استحکام و برقرار کا سلسلہ ستر برس تک جاری رہے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ستر برس کی تحدید سے کیا مراد ہے؟ تو اس کا حقیقی مفہوم پوری وضاحت کے ساتھ سامنے ہے، تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ دینی وملی نظام کے اخلاقی و سیاسی استحکام کے سلسلے میں جو بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ وہ یعنی دین وملی استحکام ٣٥ یا ٣٦ یا ٣٧ سال تک قائم رہے گا تو اسی کے اعتبار سے یہ بات کہی گئی ہے کہ مسلمانوں کے ملی وملکی امور اور سیاسی وانتظامی معاملات آنے والے زمانہ کی بہ نسبت ان ستر سالوں میں زیادہ عمدگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پاتے رہیں گے۔ بہرحال اس حدیث کی تشریح میں یوں تو شارحین نے بہت زیادہ بحث کی ہے اور لمبی چوڑی باتیں لکھی ہیں لیکن قابل اعتماد و اعتبار مسلک و عقیدہ کے مطابق نیز حدیث کے الفاظ کی رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے مختصر طور پر جو تشریح بیان کی جاسکتی تھی وہ یہاں نقل کردی گئی ہے جو انشاء اللہ کافی ہوگی۔ لیکن اگر اسی اختصار کے ساتھ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے ان منقولات و فرمودات کو بھی بیان کردیا جائے جو اس حدیث کی تشریح سے تعلق رکھتے ہیں تو حدیث کے فرمودات اور اس کے مصداق کی کچھ اور وضاحت ہوجائے گی۔ چناچہ شاہ صاحب کے مطابق جو حدیث کا حاصل اور مصداق یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ گویا آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ زمانہ ہجرت کے بعد اسلام کی پیش قدمی اور مسلمانوں کی حالات میں جو مضبوطی و استحکام پیدا ہوا ہے، وہ ٣٥، ٣٦، سالوں تک یوں ہی چلتا رہے گا اور تمام دینی وملی معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ طے پاتے رہیں گے، پھر اسلام کے دائرہ میں کچھ اضطراب واقع ہوجائے گا اور باہمی افتراق و انتشار جب کہ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہات کا سانحہ پیش آیا۔ پھر ٣٦ ھ میں مزید بگاڑ واقع ہوا جب کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے درمیان محاذ آرائی ہوئی اور جس کو جنگ جمل کہا جاتا ہے اور اس کے بعد ٣٧ ھ میں حالات بالکل ہی قابو سے باہر ہوگئے اور اسلام و مسلمانوں کو سخت و نقصان و تباہی سے دوچار ہونا پڑا۔ جب کہ حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کے درمیان بڑی خوفناک جنگ جنگ صفین کے نام سے ہوئی اس کے بعد گویا حضور ﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مسلمانوں کے دینی اور ملی نظام میں اس خرابی کے واقع ہونے کے بعد اور باغیوں کے غالب آجانے اور خلیفہ برحق مغلوبیت کی وجہ سے اگر لوگ دین وملی نظام کو تباہ کرنے والے ان اعمال واطوار کو اختیار کر کے ہلاک ہوں گے تو وہ اس راستے پر چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوں گے جس پر پچھلی امتوں کے لوگوں نے چل کر ساتھ اپنی خلافت سے دست کش ہونا پڑا اور جس طرح ان کو گویا مغلوب ہونا پڑا جس کے نتائج آگے چل کر باہمی افتراق و انتشار اور جاہ اقتدا کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف قتل و قتال کی صورت میں رونما ہوئے اور اگر خلیفہ برحق کا اقتدار و تسلط قائم رہا اور باغیوں کو غالب آنے کا موقع نہ مل سکا تو مسلمانوں کا دین وملی نظام آنے والے زمانوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ عمدگی کے ساتھ چلتا رہے گا اور یہ نظام ستر برس تک یوں ہی قائم رہے گا۔
Top