مشکوٰۃ المصابیح - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 5310
جنگ جمل
حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد مدینہ میں قاتلین عثمان اور بلوائیوں ہی کا دور دورہ تھا اس لئے سب سے پہلے انہوں نے اہل مدینہ کو ڈرا دھمکا کر انتخاب خلیفہ کے کام پر آمادہ کیا، عبداللہ بن سبا نے چونکہ اپنی پوری سازش اور تحریک میں حضرت علی ؓ کا نام اچھالا تھا اور ان ہی کو خلافت قائم کرنے کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا اس لئے قدرتی طور پر بلوائیوں کی کثرت حضرت علی ؓ کو خلیفہ منتخب کرنے کی حامی تھی۔ اگرچہ حضرت علی ؓ نے حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے پہلے ہی خلافت کے باغیوں سے اپنے تعلق کا انکار کیا تھا اور ان کی مدد کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا لیکن جب بلوائیوں نے ان سے اصرار کیا ادھر انہوں نے اہل مدینہ کی بھی کثرت آراء اپنے بارے میں دیکھی تو وہ خلافت کا بار سنبھالنے کے لئے تیار ہوگئے، تاہم جب لوگ بیعت کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے صفائی سے کہہ دیا کہ جب تک اصحاب بدر مجھ کو خلیفہ نہ تسلیم کرلیں میں بیعت نہیں لوں گا، یہ سن کر ان لوگوں نے جہاں تک ممکن ہوسکا اصحاب بدر کو جمع کر کے حضرت علی ؓ کی خدمت میں لائے اور اس طرح ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت ہوئی۔ خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی ؓ کو سب سے پہلے جس مطالبے کا سامنا کرنا پڑا وہ حضرت عثمان ؓ کے قصاص کا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کی زوجہ محترمہ سے قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے صرف دو اشخاص کا حلیہ بتایا لیکن ان کا نام نہ بتاسکیں۔ ظاہر ہے کہ حضرت علی ؓ بلا تشخص وتعین اور ثبوت فراہم ہوئے بغیر قاتلین عثمان کو سزا کیسے دے سکتے تھے۔ اس لئے قصاص کے مطالبہ کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی جب لوگوں نے بالخصوص حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ؓ نے صرف حضرت علی ؓ سے اس مطالبہ پر اصرار کیا تو حضرت علی ؓ نے کہا کہ میں قاتلین عثمان سے قصاص ضرور لوں گا اور حضرت عثمان ؓ کے معاملے میں پورا پورا انصاف کروں گا لیکن ابھی تک بلوائیوں کا زور ہے اور ادھر خلافت کا زور پوری طرح مستحکم نہیں ہوا ہے اس لئے فی الحال میں اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا، اطمینان اور استحکام حاصل ہونے کے بعد سب سے پہلے اسی معاملے کی طرف توجہ کروں گا۔ بس اسی جگہ سے حضرت علی ؓ کے خلاف بدگمانی کی فضا پیدا ہونا شروع ہوگئی، مسلمانوں بالخصوص بنو امیہ کے لوگوں کو یقین ہوگیا کہ حضرت عثمان ؓ کے قتل کا بدلہ نہیں لیا جائے گا اور قاتلان عثمان مزے اڑاتے پھریں گے، ادھر سبائیوں نے اس خوف سے کہ کہیں حضرت علی ؓ قتل عثمان کے بدلے میں ہمیں یہ سزا نہ دینے لگیں، اپنی سازش میں لگ گئے اور کوشش کرنے لگے کہ خلافت کو استحکام نصیب نہ ہو اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور عداوت میں مبتلا ہوجائیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ حج کے لئے مکہ تشریف لے گئی تھیں وہاں سے مدینہ واپس آرہی تھیں کہ راستے میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت کا سانحہ سن کر پھر مکہ لوٹ آئیں ان کو حضرت علی ؓ کی خلافت کی خبر بھی ملی ساتھ ہی انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ قاتلان عثمان کو سزا دینے میں تامل کر رہے ہیں، چناچہ وہ مکہ آئیں اور لوگوں کو ان کی اس طرح واپسی کا حال معلوم ہوا تو وہ آ کر ان کی سواری کے گرد جمع ہوگئے انہوں نے مجمع کے روبرو تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں خود خون عثمان کا بدلہ لونگی۔ بنو امیہ کے تمام لوگوں اور مکہ کے عثمانی گورنر نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ حضرت طلحہ، حضرت زبیر ؓ مدینہ سے مکہ آئے تو وہ دونوں بھی حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ ہوگئے، کچھ عرصہ تیاریوں میں لگا اور پھر حضرت عائشہ ؓ اپنے تمام حامیوں کو لے کر بصرہ روانہ ہوئیں تاکہ وہ ان سے فوجی امداد لے کر آگے کی کاروائی شروع کریں راستے میں کچھ لوگ ان سے جدا بھی ہوگئے۔ خود حضرت عائشہ ؓ نے ایک مقام پر یہ ارادہ کرلیا کہ اپنے ارادہ سے باز آ کر واپس ہوجائیں مگر مسلمانوں کو باہم محاذ آرا کرنے پر ساشیوں کے جو لوگ متعین تھے انہوں نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ کارواں کو پھر آگے بڑھنا پڑا، بصڑہ کے قریب پہنچ کر ام المومنین خیمہ زن ہو گیں، گو امیر بصرہ نے ان کی مدد کرنے سے انکار کیا مگر عام لوگوں نے ان کی حمایت کی اور ان کے لشکر میں شامل ہوگئے، حضرت عائشہ ؓ اپنا وہ لشکر لے کر مقام امربد تک آپہنچیں، اس کے بعد امیر بصرہ بھی اپنا لشکر لے کر وہاں آگیا اور دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوگئے، دونوں کے درمیان جنگ ہوئی اور گورنر بصرہ کی فوج شکست کھا کر بھاگ کھڑی ہوئی اور ام المومنین وغیرہ کا بصرہ پر قبضہ ہوگیا۔ حضرت علی ؓ کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو وہ ایک بڑا لشکر لے کر بصڑہ روانہ ہوئے ادھر بعض دور اندیش اور صاحب بصیرت حضرات کی طرف سے ام المومنین اور حضرت علی ؓ کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش ہونے لگی چونکہ ام المومنین اور حضرت علی ؓ دونوں کے قلوب صاف تھے اور دونوں ہی اس باہی محاذ آرائی پر سخت دل گرفتہ تھے، اس لئے جب م صالحین نے دونوں کے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں دور کرا کے باہمی صلح و صفائی کا میدان ہموار کرلیا اور مصالحت یقین ہوگئی تو عین موقع پر عبداللہ بن سبا جو اپنے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ حضرت علی ؓ کے لشکر میں موجود تھا اپنی پرانی یہودی سازش کے تحت متحرک ہوگیا اور جس دن صلح نامہ پر دستخط ہونے والے تھے اس کی صبح سپیدہ سحر نمودار ہونے سے پہلے سپاہیوں نے اچانک ام المومنین کے لشکر پر حملہ کردیا اور اس طرح دونوں طرف کی فوجیں اس بدگمانی میں پڑ کر کہ فریق مخالف نے مصالحت کی کوشش ٹھکرا کر جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے، باہم برسر پیکار ہوگئیں، ام المومنین نے اس موقع پر بھی جنگ رکوانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے اونٹ پر ہودج میں بیٹھ کر میدان جنگ میں آئیں لیکن چونکہ دونوں طرف کے جذبات بھڑک اٹھے تھے اس لئے میدان جنگ میں ان کی بہ نفس نفیس آمد دونوں طرف سے جنگ کے شعلے کو بھڑکانے کا مزید سبب بن گئی جم کر لڑائی ہوئی اور جنگ کا سارا زور حضرت ام المومنین کے اونٹ کے ارگرد رہا، اسی مناسبت سے اس جنگ کو جنگ جمل یعنی اونٹ کی لڑائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سازشیوں کی سازش لوگوں کو بھڑکاتی رہی اور مسلمانوں کی تلوار اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹنے میں مصروف رہی۔ حضرت عائشہ ؓ نے آخری طور پر جنگ بند کرانے کی ایک اور کوشش کی لیکن عبداللہ بن سبا کے لوگوں کی وجہ سے وہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔ ام المومنین کا اونٹ لڑائی اور کشت وخون کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چاروں طرف سے حضرت عائشہ ؓ کے کجاوہ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی، اہل بصرہ پوری جان نثاری کے ساتھ ان تیروں کو اپنے اوپر لے جا رہے تھے اور اونٹ کے چاروں طرف لاشوں کے انبار لگ گئے، آخرش حضرت علی ؓ کے لشکر والوں نے ایک زور کا دھاوا بولا اور ایک شخص نے موقع پا کر اونٹ کے پاؤں میں تلوار ماری اور چلا کر سینہ کے بل بیٹھ گیا اونٹ کے گرتے ہی اہل بصرہ منتشر ہوگئے اور جنگ ختم ہوگئی۔ اس جنگ میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد تیس ہزار تھی جن میں سے نو ہزار آدمی میدان جنگ میں کام آئے۔ اس کے بعد اگلے دن حضرت علی ؓ بصرہ میں داخل ہوئے تمام اہل شہر نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور بعد میں حضرت علی ؓ نے ام المومنین کو پورے ادب و احترام کے ساتھ بصرہ سے روانہ فرمایا اور طرفین کے درمیان ہر طرح صلح و صفائی ہوگئی۔ یہ واقعہ ٣٦ ھ کے وسط پیش آیا اور یہ یہودیوں کی گھناؤنی سازش کا دوسرا حملہ تھا جس سے اہل اسلام کو زبردست دھچکا لگا اور مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔
Top