مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2117
قران مجید پڑھنے کى فضیلت کا بیان
قرآن مجید کیا ہے؟ یہ وہ سب سے مقدس اور سب سے عظیم کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کاروان انسانیت کے سب سے آخری اور سب سے عظیم راہنما رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی جو ظلم و جہل کی تاریکیوں میں منارہ نور، کفر و شرک کے تابوت کی آخری کیل اور پوری انسانی برادری کے لئے اللہ کی طرف سے اتارا ہوا سب سے آخری اور سب سے جامع قانون ہے۔ اور جسے حبل متین کہا گیا ہے۔ قرآن مجید کی عظمت و بزرگی اور اس کی فضیلت و رفعت کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ وہ خداوند عالم، مالک ارض و سماء اور خلق لوح و قلم کا کلام ہے تمام عیوب اور تمام نقائس سے بری اور پاک ہے فصاحت و بلاغت کا وہ آخری نقطہ عروج کہ بڑے بڑے عرب فصیح وبلیغ اس کے سامنے طفل مکتب علوم و معارف اور فکر و دانش کا وہ کوہ ہمالہ کہ دنیا کے بڑے بڑے مفکر، فلسفی، دانشور اور ارباب فکر و نظر اس سے سر ٹکرائیں۔ قرآن مجید کی تلاوت اور پڑھنے پڑھانے کا ثواب محتاج بیان نہیں تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ کوئی ذکر، تلاوت کلام مجید سے زیادہ ثواب نہیں رکھتا، خصوصا نماز میں اس کی قرأت کا ثواب اور اس کی فضیلت اتنی ہے کہ وہ دائرہ تحریر سے باہر ہے، قرآن کریم کی تلاوت کے وقت اس کے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں اور نماز میں اس کی قرأت کے وقت اس کے ہر حرف کے عوض پچیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ قرآن کا پڑھنا بندہ کو اللہ کا قرب بخشتا ہے، قلب کو عرفان الٰہی اور ذکر اللہ کے نور سے روشن کرتا ہے اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت کرے گا۔ تلاوت قرآن کا مقصد اعلیٰ یہ ہے کہ وہ تفکر اور تذکر یعنی امور دین کو یاد دلانے اور آخرت کی طرف توجہ کا باعث ہو اور کثرت تلاوت کی وجہ سے احکام الٰہی یاد اور مستحضرت ہوں تاکہ احکام الٰہی پر عمل کیا جائے اور عبرت حاصل کی جائے تلاوت کا یہ مقصد نہیں کہ محض آواز و حروف کو آراستہ کیا جائے اور دل غفلت کے اندھیروں میں پڑا رہے چناچہ جو شخص قرآن پڑھے مگر اس پر عمل نہ کرے تو قرآن ایسے شخص کا دشمن ہوتا ہے۔ اس لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو قرآن تو پڑھتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے کیونکہ قرآن صرف پڑھنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنا ہے اور جو شخص قرآن پڑھتا تو ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا وہ گویا قرآن کی اہانت کرتا ہے۔ لہٰذا قرآن پڑھنا اور اس پر عمل کرنا اس کے حق میں آخرت کے نقصان و خسران کی دلیل ہوگا۔ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ تفکر و تذکر اور فہم معانی اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آہستگی، وقار، ترتیل اور حضور دل کے ساتھ قرآن پڑھا جائے اسی لئے قرآن کی تجوید لازم ہے اور قرآن کا کم پڑھنا مشروع ہوا ہے چناچہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ قرآن کے حق کی ادائیگی کے لئے یہ کافی ہے کہ چالیس دن میں ایک قرآن ختم کیا جائے بلکہ ایک سال میں قرآن ختم کرنا بھی کافی ہے، نیز عبادت مثلا تراویح وغیرہ میں بھی ایک قرآن کم سے کم سات دن میں ختم کرنا چاہئے اور جس قدر اس سے زیادہ عرصہ میں ختم کرے افضل ہے۔ جو شخص عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے قرآن کے معانی نہ جانتا ہو اس کو بھی چاہئے کہ وہ حضور دل کے ساتھ قرآن کی تلاوت شروع کرے اور اپنے ذہن میں یہ خیال جمائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کے وہ احکام ہیں جو اس نے دنیا پر نازل فرمائے ہیں نیز وہ اس عاجز اور فروتنی کے ساتھ بیٹھ کر تلاوت کرے گا کہ گویا وہ قرآن نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ احکم الحاکمین کا کلام براہ راست سن رہا ہے۔
Top