مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2210
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لأبي بن كعب : إن الله أمرني أن أقرأ عليك القرآن قال : آلله سماني لك ؟ قال : نعم . قال : وقد ذكرت عند رب العالمين ؟ قال : نعم . فذرفت عيناه . وفي رواية : إن الله أمرني أن أقرأ عليك ( لم يكن الذين كفروا ) قال : وسماني ؟ قال : نعم . فبكى
حضرت ابی بن کعب کی سعادت
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں؟ حضرت ابی ؓ نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام آپ کے سامنے لیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ حضرت ابی ؓ نے کہا کہ دونوں جہاں کے پروردگار کے ہاں میرا ذکر کیا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت ابی بن کعب ؓ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابی ؓ سے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے سورت لم یکن الذین کفروا پڑھو۔ حضرت ابی ؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ (یہ سنتے ہی حضرت ابی ؓ رو پڑے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت ابی بن کعب ؓ تمام صحابہ میں سب سے بڑے قاری تھے چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کے اسی امتیاز وشرف کو صحابہ کے سامنے اسی طرح بیان کیا کہ اقرأکم (تم میں سب سے بڑے قاری ابی ہیں) حضرت ابی ؓ کے قول اللہ سمانی لک کا مطلب یہ تھا کہ کیا خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے میرا ہی نام لیا ہے اور انہوں نے یہ بات اپنی عاجزی و انکساری کے اظہار اور اپنی گمنامی کی وجہ سے کہی کہ میں اس لائق کہاں ہوں کہ پروردگار بطور خاص میرا نام لے کر آپ کو حکم دے یا پھر انہوں نے یہ بات از راہ ذوق ولذت کے کہی اور اپنی اس عظیم سعادت وشرف کا اظہار کیا کہ اللہ نے مجھے یہ عظیم مرتبہ بخشا۔ یہ عظیم شرف سن کر حضرت ابی ؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجانا خوشی کی وجہ سے تھا ایسی خوشی جو حقیقی عاشق کو محبوب کے وصال اور محبوب کی کرم فرمائی کے وقت حاصل ہوتی ہے ایسی صورت میں قلب کا حزن و ملال سکون پا کر آنکھوں کی راہ سے نکل پڑتا ہے۔ خاص طور پر سورت لم یکن ہی کو پڑھنے کا حکم اس لئے ہوا کہ یہ سورت الفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر بھی ہے اور اس میں فوائد بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ اس سورت میں دین کے اصول، وعد وعید اور اخلاص وغیرہ کے اعلیٰ مضامین مذکورہ ہیں۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہر قرآن اور اہل علم وفضل کے سامنے قرآن پڑھنا مستحب ہے اگرچہ قاری سننے والے سے افضل نہ ہو۔
Top