مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2216
ختم الاحزاب کیا ہے
مشائخ و عارفین کی اصطلاح میں سات دن میں قرآن ختم کرنے کا ختم الاحزاب کہتے ہیں ملا علی قاری (رح) کہتے ہیں ملا علی قاری وضاحت کے پیش نظر ختم الاحزاب کی سب سے صحیح ترتیب فمی بشوق ہے ملا علی قاری نے فمی بشوق کو ختم الاحزاب کی صحیح ترتیب اس لئے کہا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ختم الاحزاب (سات دن میں قرآن ختم کرنے کا طریقہ) یہ ہے کہ جمعہ کے روز ابتداء قرآن سے سورت مائدہ کے آخر تک پڑھا جائے شنبہ کے روز سورت انعام سے سورت توبہ کے آخر تک، اتوار کو سورت یونس سے سورت مریم کے آخر تک، پیر کو سورت طہ سے سورت قصص کے آخر تک، منگل کو سورت عنکبوت سے سورت ص کے آخر تک بدھ کو سورت زمر سے سورت رحمن کے آخر تک اور جمعرات کو سورت واقعہ سے آخر قرآن تک پڑھا جائے۔ اکثر حاجات کی تکمیل کے لئے مجرب بتایا گیا ہے نیز اس ترتیب کے ساتھ قرآن پڑھنے کے بارے میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ ابتداء جمعہ کے روز سے کی جائے بہرکیف مذکورہ بالا بحث کا حاصل یہ ہوا کہ فمی بشوق کی ترتیب کے ساتھ ختم قرآن اور چیز ہے اور ختم الاحزاب دوسری چیز ہے جب کہ ملا علی قاری کے قول کے مطابق ختم الاحزاب اور فمی بشوق کی ترتیب دونوں ایک ہی چیزیں ہیں۔ اب یہ سمجھئے کہ فمی بشوق اور اس کی ترتیب کیا ہے؟ فمی بشوق کی ترتیب کے ساتھ قرآن ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی سات منزلیں سات دن میں اس طرح پڑھی جائیں کہ ان کے شروع میں فمی بشوق کے حروف واقع ہوں یعنی ف سے سورت فاتحہ کی طرف اشارہ ہے میم سے سورت مائدہ کی طرف، ی سے سورت یونس کی طرف، ب سے سورت بنی اسرائیل کی طرف، ش سے سورت شعراء کی طرف، واؤ سے سورت والصافات کی طرف اور ق سے سورت ق کی طرف اشارہ ہے اس طرح ان حروف کے مجموعہ کا نام ہے فمی بشوق، قرآن ختم کرنے کی یہ ترتیب حضرت علی ؓ کی طرف منسوب ہے کہ وہ اسی ترتیب سے قرآن ختم کرتے تھے۔ اب پھر حدیث کے مفہوم کی طرف آئیے اس بارے میں نووی کا قول یہ ہے کہ حدیث کا حکم باعتبار اشخاص کے مختلف ہے یعنی وہی بات کہ اس کا تعلق کم فہم اور کم علم لوگوں سے ہے لہٰذا جو لوگ قرآنی علوم و معارف پر نظر رکھتے ہوں اور قرآن کے دقائق و معارف سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو وہ اسی قدر اقتصار کرسکتے ہیں کہ جب وہ قرآن پڑھیں تو پڑھتے وقت قرآن کی آیات کا کمال فہم بھی انہیں حاصل ہوتا رہے جو شخص علم کی توسیع و اشاعت یا لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے یا اسی قسم کے دوسرے کاموں میں مشغول رہتا ہو تو وہ اتنا ہی پڑھنے پر اکتفاء کرے جس سے اس کے اصل کاموں میں حرج واقع نہ ہوتا ہو، اسی طرح جو شخص تحصیل علم یا اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی فراہم کرنے میں منہمک رہتا ہو، اس کے لئے بھی یہی حکم ہے مذکورہ بالا لوگوں کے علاوہ اشخاص کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ جتنا زیادہ پڑھ سکیں پڑھیں بشرطیکہ زیادہ پڑھنا اکتاہٹ اور الفاظ کی تیز ادائیگی کی حد تک نہ پہنچ جائے۔
Top