مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2217
وعن عقبة بن عامر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الجاهر بالقرآن كالجاهر بالصدقة ولامسر بالقرآن كالمسر بالصدقة . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وقال الترمذي : هذا حديث حسن غريب
قرآن بآواز بلند پڑھنا افضل ہے یا آہستہ
حضرت عقبہ بن عامر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بآواز بلند قرآن کریم پڑھنے والا شخص ظاہری صدقہ دینے والے کی طرح ہے اور آہستہ قرآن پڑھنے والا شخص چھپا کر صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔ (ترمذی ابوداؤد، نسائی) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تشریح
چھپا کر صدقہ دینا ظاہری طور پر صدقہ دینے سے افضل ہے لہٰذا حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ اسی طرح قرآن کریم آہستہ پڑھنا بآواز بلند پڑھنے سے افضل ہے۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جس طرح آہستہ قرآن پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں احادیث منقول ہیں اسی طرح بآواز بلند قرآن پڑھنے کی فضیلت کے سلسلہ میں احادیث منقول ہیں لہٰذا دونوں طرح کی احادیث میں مطابقت یہ ہے کہ آہستہ آواز سے پڑھنا تو اس شخص کے حق میں افضل ہے جو ریار سے بچنا چاہتا ہو اور بآواز بلند پڑھنا اس شخص کے حق میں افضل ہے جو ریاء میں مبتلا ہونے کا خوف نہ رکھتا ہو بشرطیکہ اس طرح دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے بایں طور کہ لوگ سنتے ہیں جس سے انہیں ثواب ملتا ہے یا دوسرے لوگ قرآن سن سن کر سیکھتے ہیں یا یہ کہ دوسروں کو پہنچتا ہے بایں طور کہ لوگ سنتے ہیں جس سے انہیں ثواب ملتا ہے کہ بآواز قرآن پڑھنا شعار دین اور اللہ کے کلام کا برملا اظہار ہے پڑھنے والے کے دل کو بیداری حاصل ہوتی ہے اس کا دھیان کسی اور طرف نہیں بٹتا، اس کے دل کی غفلت کو دور کرتا ہے، نیند کا غلبہ کم کرتا ہے اور یہ کہ دوسروں کو عبادت کا شوق دلاتا ہے، بہرکیف ان فوائد میں سے ایک فائدہ بھی پیش نظر ہو تو پھر اس صورت میں بآواز بلند پڑھنا ہی افضل ہوگا۔
Top