مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4221
وعن أسماء بنت أبي بكر : أنها أخرجت جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مكفوفين بالديباج وقالت : هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت عند عائشة فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى نستشفي بها . رواه مسلم
آنحضرت ﷺ کا طیلسانی جبہ
اور حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے طیلسانی کا کسروانی جبہ نکالا، اس کے گریبان پر (سبخاف یعنی گوٹ کے طور پر) ریشمی کپڑے کا ٹکڑا سلا ہوا تھا اور اس کی دونوں کشادگیوں پر بھی ریشمی بیل ٹکی ہوئی تھی پھر انہوں نے فرمایا کہ یہ رسول کریم ﷺ کا جبہ ہے جو حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھا اور جب ان کی وفات ہوئی تو (حضرت عائشہ ؓ کی میراث سے جو میری بہن تھیں) میرے قبضے میں آگیا رسول کریم ﷺ اس جبہ کو (کبھی کبھی) پہن لیا کرتے تھے، ہم اس کو بیماروں کے لئے دھوتے ہیں (یعنی اس کے دھوئے ہوئے پانی کو بیماروں کو پلاتے ہیں) اور اس کے ذریعہ شفا حاصل کرتے ہیں۔ (مسلم)

تشریح
طیالس اصل میں طیلسان کی جمع ہے اور طیلسان، ایک دوسری زبان کے لفظ تالسان کا معرب ہے جو ایک خاص قسم کی چادر کو کہتے ہیں، یہ چادر سیاہ رنگ کی ہوتی ہے اور صوف (اون) سے بنتی ہے پہلے زمانہ میں اس چادر کو عام طور پر یہودی لوگ اوڑھا کرتے تھے یہاں حدیث میں جس جبہ (چغہ) کا ذکر کیا گیا ہے وہ اسی چادر کا بنایا گیا تھا اور سیاہ رنگ کا مدور تھا چونکہ اس طرح کا جبہ فارس (ایران) کے بادشاہ خسرو کی طرف منسوب ہوتا تھا اور خسرو کا عربی لفظ کسریٰ یا بعض کے مطابق کسریٰ ہے اس لئے اس جبہ کو کسروانی کہا گیا ہے۔ دونوں کشادگیوں سے مراد جبہ کے وہ دونوں کنارے ہیں جہاں سے جبہ کھلا ہوتا ہے اور جو ایک آگے اور ایک پیچھے ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر بعض جبوں کے آگے اور پیچھے دامن میں چاک کھلے ہوتے ہیں انہی دونوں چاکوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان پر جو سبخاف (گوٹ یا بیل) ٹکی ہوئی تھی وہ ریشم کی تھی۔ حضرت اسماء ؓ نے اس جبہ کو اس لئے نکالا تھا کہ لوگوں کو اس نعمت و برکت کا ان (اسماء ؓ کے پاس ہونا معلوم ہوا اور یہ ظاہر کرنا بھی مقصد تھا کہ اگر جبہ پر اس طرح کی ریشمی سبخاف ٹکی ہوئی ہو تو اس کو پہننا جائز ہے۔ واضح رہے کہ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ریشمی سبخاف لگے ہوئے جبہ کو پہنا ہے جب کہ اسی باب کی دوسری فصل میں عمران بن حصین ؓ سے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ میں ایسا کرتا نہیں پہنتا جس پر ریشمی سبخاف ٹکا ہو۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے اس کو اس توجیہ کے ذریعہ دور کیا جائے گا کہ حضرت عمران ؓ کی روایت اس صورت پر محمول ہے جب کہ وہ ریشمی سبخاف چار انگشت سے زائد ہو اور یہاں جو روایت نقل کی گئی ہے یہ چار انگشت یا اس سے کم ریشمی سبخاف کے ٹکے ہوئے ہونے پر محمول ہے یا یہ کہ حضرت عمران ؓ کی روایت کا منشاء احتیاط وتقویٰ کی صورت کو بیان کرنا ہے اور حضرت اسماء ؓ کی اس حدیث کا مقصد اصل جواز کو ظاہر کرنا ہے۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بعض اعتبار سے کرتے میں جبہ کی بہ نسبت زیادہ ٹھاٹ باٹ اور آسودگی کا اظہار ہوتا ہے (اس لئے آنحضرت ﷺ نے ریشمی سبخاف کے ٹکے ہوئے کرتے کو پہننا پسند نہیں فرمایا اور ریشمی سبخاف ٹکا ہوا جبہ پہنا۔ اور اس کے ذریعہ شفا حاصل کرتے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس کے دھوئے ہوئے پانی کو بیماروں کو پلاتے ہیں جس سے ان کو شفا ملتی ہے یا اس شفایابی کے مقصد سے اس جبہ کو مریض کے سر پر اور آنکھوں پر رکھتے لگاتے ہیں اور یا اس جبہ کو ہاتھ سے چھو کر یا اس کو بوسہ دے کر اس کی برکت سے شفا حاصل کرتے ہیں۔
Top