مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4223
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال : رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم علي ثوبين معصفرين فقال : إن هذه من ثياب الكفار فلا تلبسها وفي رواية : قلت : أغسلهما ؟ قال : بل احرقها . رواه مسلم وسنذكر حديث عائشة : خرج النبي صلى الله عليه وسلم ذات غداة في باب مناقب أهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم
کسم کا رنگا ہوا کپڑا نہ پہنو
اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ کو کسم کے رنگے ہوئے دو کپڑوں میں دیکھا تو فرمایا کہ۔ یہ کافروں کا لباس ہے (کہ نہ وہ حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں اور نہ مرد و عورت کے لباس میں فرق کرتے ہیں) لہٰذا تم ان کو نہ پہنو۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے عرض کیا کہ کیا ان کو دھو ڈالوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (نہیں) بلکہ جلا ڈالو۔ (مسلم) اور حضرت عائشہ ؓ کی روایت خرج النبی ﷺ ذات غداۃ الخ انشاء اللہ ہم مناقب اہل بیت نبوی ﷺ کے باب میں نقل کریں گے۔

تشریح
شارحین نے لکھا ہے کہ جلا ڈالنے سے آنحضرت ﷺ کی مراد اس بات کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا تھا کہ ان کپڑوں کو کسی بھی صورت سے اپنی ملکیت اور اپنے قبضے سے نکال دو، خواہ اس کو کسی دوسرے کے ہاتھ بیچ دو، یا کسی کو ہبہ کردو غرض کہ جس طرح بھی ہو ان کو اپنے پاس سے جدا کردو۔ جہاں تک اس باب کا تعلق ہے کہ آپ ﷺ نے ان کپڑوں کو دھو ڈالنے کا حکم کیوں نہیں دیا تو اس کا سبب یہ تھا کہ کسم کا رنگا ہوا کپڑا اگرچہ مردوں کے لئے حرام و مکروہ ہے لیکن عورتوں کے لئے مکروہ نہیں ہے لہٰذا اس کو دھو ڈالنے کی صورت میں گویا اپنے مال کو ناقص کردینا یا ضائع کر ڈالنا تھا اس لئے آپ ﷺ نے مذکورہ حکم کے ذریعہ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ان کپڑوں کو چاہئے اپنی عورتوں کو دے دو چاہے بیچ ڈالو اور چاہے دوسروں کی عورتوں کو ہبہ کردو کہ وہ ان کپڑوں سے فائدہ اٹھائیں۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو بہ نظر ظاہر یہ حکم دیا گیا اور انہوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا۔ اور پھر جب اگلے دن وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے بارے میں عرض کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے وہ کپڑے اپنی عورتوں کو کیوں نہیں پہنا دیئے کیونکہ ایسے کپڑوں کا پہننا عورتوں کے لئے درست ہے۔ اس روایت کی بنا پر شارحین نے جلا ڈالنے کو اس کے ظاہری حکم کے خلاف پر محمول کیا ہے اور بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ جلا ڈالنے کا حکم اصل میں اس بات کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ ان کپڑوں سے کسم کے رنگ کو ختم کردیا جائے تو یہ قول روایت کے مفہوم سے بھی مطابقت نہیں رکھتا اور روایت کے بھی خلاف ہے۔ واضح رہے کہ مردوں کو کسم کے رنگے ہوئے کپڑے پہننے کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، بعض علماء اس کو مطلق حرام کہتے ہیں اور بعض حضرات مباح کہتے ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر کپڑے کو بننے کے بعد کسم میں رنگا گیا ہو تو اس کا پہننا حرام ہوگا اور اگر سوت کو رنگنے کے بعد اس کا کپڑا بنا گیا ہو تو اس کا پہننا مباح ہوگا، بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر اس (کسم) کی بو زائل ہوگئی تو مباح ہوگا ورنہ حرام اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کسم کے رنگے ہوئے کپڑوں کو مجلسوں وغیرہ میں پہننا تو مکروہ ہے، البتہ اگر گھر میں پہنا جائے تو درست ہے جہاں تک حنیفہ کا تعلق ہے تو ان کے مسلک میں مختار قول یہ ہے کہ کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا مکروہ تحریمی ہے اور اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ کسم کے علاوہ دوسرے سرخ رنگ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں شیخ قاسم حنفی نے جو مصر کے متاخرین علماء حنیفہ میں بہت بڑی حیثیت کے مالک گزرے ہیں اور قسطلانی کے استاد ہیں، فتویٰ دیا ہے کہ اصل میں رنگ کے سبب سے ہے لہٰذا ہر سرخ رنگ مردوں کے لئے حرام و مکروہ ہے۔
Top