مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4270
وعن عبد الواحد بن أيمن عن أبيه قال : دخلت على عائشة وعليها درع قطري ثمن خمسة دراهم فقالت : ارفع بصرك إلى جاريتي انظر إليها فإنها تزهى أن تلبسه في البيت وقد كان لي منها درع على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فما كانت امرأة تقين بالمدينة إلا أرسلت إلي تستعيره . رواه البخاري
آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حضرت عائشہ ؓ کا فقر و زہد
اور حضرت عبدالواحد بن ایمن اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت ان کے جسم پر (مصر کے بنے ہوئے) قطری کپڑے کا کرتا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی، حضرت عائشہ ؓ نے دوران گفتگو مجھ سے فرمایا کہ ذرا میری اس لونڈی کو تو دیکھو یہ کس قدر غرور کرتی ہے یہ گھر میں بھی اس کپڑے کو پہننے پر تیار نہیں ہوتی (چہ جائیکہ اس کو پہن کر باہر نکلے) حالانکہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں میرے پاس اس طرح کے (یعنی قطری کپڑے) کا ایک کرتا تھا اور مدینہ میں جو بھی عورت (اپنی شادی میں یا کسی اور کی شادی کے وقت) اپنی آرائش کرنا چاہتی وہ کسی کو میرے پاس بھیج کر وہی کرتا عاریتا منگواتی۔ (بخاری)

تشریح
اس حدیث میں حضرت عائشہ ؓ نے یہاں یہ واضح کیا ہے کہ اس تھوڑے سے عرصہ میں ذہنوں میں کیسی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے کہ جس کپڑے کے کرتے کو کل تک عورتیں اپنی آرائش کے لئے ضروری سمجھتی تھیں وہی کرتا اب وہ اپنے گھر میں بھی پہننا پسند نہیں کرتی ہیں وہیں انہوں نے گویا آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اپنے فقر و تنگی اور زہد کو بھی بیان کیا ہے۔
Top