مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4317
وعن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن اليهود والنصارى لا يصبغون فخالفوهم .
خضاب کرنے کا مسئلہ
اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہودی اور عیسائی خضاب نہیں لگاتے لہٰذا تم ان کے خلاف کرو۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ تم لوگ خضاب لگا کر یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کو ظاہر کرو۔ واضح رہے کہ خضاب سے مراد وہ خضاب ہے جو سیاہ نہ ہو کیونکہ سیاہ خضاب لگانا ممنوع ہے، اس کی تفصیلی بحث آگے آئے گی، جہاں تک صحابہ وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ مہندی کا سرخ خضاب کرتے اور کبھی کبھی زرد خضاب بھی کرلیا کرتے تھے چناچہ مہندی کا خضاب لگانے کے بارے میں متعدد احادیث منقول ہیں اور علماء نے لکھا ہے کہ مہندی کا خضاب مؤمن ہونے کی ایک علامت ہے، تمام علماء کے نزدیک مہندی کا خضاب لگانا جائز ہے، بلکہ بعض فقہاء نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے اس کو مستحب بھی کہا ہے اور اس کے فضائل میں وہ احادیث بھی نقل کرتے ہیں اگرچہ ان احادیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مجمع البحار میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں خضاب کرنے کا حکم ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جن کے بال کھچڑی یعنی کچھ سیاہ اور کچھ سفید ہوں، بلکہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کے بال بالکل سفید ہوگئے ہوں اور سیاہ بالوں کا نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا ہو، جیسا کہ حضرت ابوقحافہ ؓ کے بال تھے، جن کے متعلق اگلی حدیث میں ذکر آ رہا ہے، اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ خضاب کے مسئلہ میں علماء کے اقوال مختلف ہیں اور اس اختلاف کی بنیاد احوال کے مختلف ہونے پر ہے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس حکم کا تعلق اس مسلم شہر و علاقہ کے لوگوں سے ہے جہاں خضاب لگانے کا عام دستور ہو کہ اگر کوئی شخص اپنے شہر کے لوگوں کے تعامل و عادت سے اپنے آپ کو الگ رکھے گا تو غیر مناسب شہرت کا حامل ہوگا جو مکروہ ہے اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے بالوں کی سفیدی اس کے باوقار و پاکیزہ بڑھاپے کی علامت اس کے چہرے مہرے کی نورانیت اور خوشنمائی کا سبب ہو بلکہ، خضاب کرنے سے اس کی شخصیت کا وقار پھیکا پڑجاتا ہو تو اس کے حق میں خضاب نہ کرنا ہی زیادہ بہتر اور زیادہ مناسب ہے اس کے برخلاف جس شخص کے بالوں کی سفیدی اس کے بدنما اور بےوقت بڑھاپے کی غماز ہو جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کی دل کشی مجروح ہوتی ہو تو اس کو اپنا یہ عیب چھپانا اور خضاب لگانا زیادہ بہتر و مناسب ہے۔
Top