مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4319
وعن ابن عباس قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يحب موافقة أهل الكتاب فيما لم يؤمر فيه وكان أهل الكتاب يسدلون أشعارهم وكان المشركون يفرقون رؤوسهم فسدل النبي صلى الله عليه وسلم ناصيته ثم فرق بعد . ( متفق عليه )
سر کے بالوں میں فرق وسدل دونوں جائز ہیں
اور حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں ملتا تھا اس میں آپ ﷺ اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے چناچہ اہل کتاب اپنے (سر کے) بالوں کو یونہی چھوڑے رکھتے تھے ( یعنی وہ مانگ نہیں نکالتے تھے بلکہ اپنے بالوں کو یونہی پڑے رہنے دینے تھے) جب کہ مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے اس لئے نبی کریم ﷺ اہل کتاب کے طریقے کے مطابق) اپنی پیشانی کے بال یوں ہی چھوڑے رکھتے تھے لیکن بعد میں مانگ نکالنے لگے تھے ( بخاری و مسلم)

تشریح
سدل کے معنی ہیں سر کے بالوں کو چاروں طرف یونہی چھوڑے اور لٹکائے رکھنا اور مانگ نکالنے کے لئے دونوں طرف کے بالوں کو اکٹھا نہ کرنا اور فرق کا مطلب ہے سر کے آدھے بالوں کو ایک طرف اور آدھے بالوں کو دوسری طرف اکٹھا کرلینا نیز قاموس میں لکھا ہے کہ فرق بالوں کے درمیان پیدا کی جانے والی راہ یعنی مانگ کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے نبی کریم ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو ابتداء میں اہل کتاب کی موافقت میں پیشانی کے بالوں کو سدل کرتے تھے، یعنی یوں ہی بےترتیب چھوڑے رکھتے کیونکہ اہل کتاب کا طریقہ سدل ہی کا تھا واضح رہے کہ سدل کا مطلب اگر بالوں کے سر کے چاروں طرف یونہی رکھنا ہے اور اس میں پیشانی کے بالوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، لیکن سدل اور فرق کے درمیان امتیاز چونکہ پیشانی کے اوپر کے بالوں ہی سے ظاہر ہوتا ہے اس سبب سے خاص طور سے پیشانی کے بالوں کو ذکر کیا گیا ہے اگرچہ طیبی نے کہا ہے کہ یہاں سدل سے مراد محض پیشانی کے بالوں کو چھوڑے رکھنا ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ شروع میں تو آنحضرت ﷺ کا معمول سدل ہی کا تھا لیکن بعد میں فرق یعنی مانگ نکالنا آخری عمل پایا، لہٰذا اس بنا پر بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ سدل یعنی بالوں کو یوں ہی چھوڑے رکھنا منسوخ ہے، کیونکہ آنحضرت ﷺ کو چھوڑ کر فرق کو اختیار کرنا حکم الہٰی (وحی) کے سبب تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو یہ اجازت تھی کہ جس معاملہ میں ابھی کوئی شرعی حکم نازل نہیں ہوا ہے اس اہل کتاب کے دستور کے مطابق عمل کیا جاسکتا ہے، چناچہ جب بالوں کے بارے میں آپ ﷺ کو بذریعہ وحی فرق یعنی مانگ نکالنے کا حکم دیا گیا تو یہ اس بات کی علامت قرار پایا کہ بالوں کے سلسلے میں عارضی طور پر اہل کتاب کے دستور کے مطابق عمل کرنے کی جو اجازت تھی وہ منسوخ ہوئی اس سے خود بخود یہ واضح ہوگیا کہ فرق کا حکم آخری و حتمی ہے اس لئے اس بارے میں اہل کتاب کی مخالفت یعنی سدل کو ترک کرنا بھی حتمی ہی طور پر ہونا چاہئے۔ اس حدیث سے بعض حضرات نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی شریعت ہمارے لئے قابل اتباع ہے جب تک کہ ہمیں اس کے برخلاف عمل کرنے کا حکم نہ دیا جائے، لیکن یہ اتباع انہیں چیزوں میں ہوگا جن کے بارے میں ہو کہ ان میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ جوں کے توں وہی احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے پچھلی شریعت میں نازل کئے تھے۔ روایت کے ان الفاظ یحب موافقتہم (آپ ﷺ اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے) سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان معالات میں بھی اہل کتاب کی موافقت کرنے کو آنحضرت ﷺ کے محض اختیار پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ اگر آپ ﷺ پسند کریں تو اہل کتاب کے مطابق عمل کریں اور اگر پسند نہ کریں تو عمل نہ کریں اگر یہ (یعنی موافقت کرنے کا حکم) اسی درجہ کا ہوتا، جس درجہ کا کوئی شرعی حکم ہوتا ہے تو اس میں آنحضرت ﷺ کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا کوئی سوال نہیں ہوتا بلکہ ایک واجب اور لازم امر ہوتا۔ بعض احادیث میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ اگر آپ ﷺ کے بال بےترتیب اور بکھرے ہوئے ہوتے تو ان کو اکٹھا کر کے مانگ نکال لیتے تھے ورنہ ان کی حالت پر چھوڑے رکھتے تھے، گویا عام حالات میں (جب کہ بال بکھرے ہوئے نہ ہوتے) آپ ﷺ سدل یا دونوں میں سے کسی کا بھی اہتمام و تکلف نہیں فرماتے تھے بلکہ ان بالوں کو ان کی حالت پر رہنے دیتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ سدل اور فرق دونوں جائز ہیں لیکن فرق افضل ہے۔
Top