مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4320
وعن نافع عن ابن عمر قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن القزع . قيل لنافع ما القزع ؟ قال يحلق بعض رأس الصبي ويترك البعض . وألحق بعضهم التفسير بالحديث .
" قزع " کی ممانعت
اور حضرت نافع، حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے نبی کریم ﷺ کو قزع سے منع فرماتے ہوئے سنا، حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے۔ (بخاری ومسلم) اور بعض راویوں نے وضاحت کو حدیث کے ساتھ جوڑا ہے یعنی راوی کے مطابق، قزع کے یہ معنی آنحضرت ﷺ ہی نے بیان فرمائے۔

تشریح
نووی کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں کیوں کہ حدیث کے روای نے بھی یہی معنی بیان کئے ہیں اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے! جہاں تک لڑکے کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے، اسی لئے فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثناء کے بغیر بیان کیا جاتا ہے اور قزع میں کراہت اس اہل کفر کی مشابہت اور بد ہئیتی سے بچانے کے لئے ہے۔ راوی نے قزع کا جو مطلب بیان کیا ہے اور جس کو نووی نے زیادہ صحیح کہا ہے اس میں چوٹی (جیسا کہ غیر مسلم اپنے سر چھوڑتے ہیں) (زلف اور بالوں کی) وہ تراش خراش شامل ہے جو مسنون طرز کے خلاف ہو۔
Top