مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4324
وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة .
انسانی بال سے نفع اٹھانا حرام ہے۔
اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو عورت اپنے بالوں میں کسی دوسری عورت کے بالوں کا جوڑا لگائے (خواہ خود لگائے اور خواہ کسی دوسرے سے لگوائے) اور جو عورت کسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جو عورت گودے اور جو عورت گدوائے ان سب پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (بخاری، ومسلم)

تشریح
بالوں کا جوڑ لگائے یا لگوائے سے مراد یہ ہے کہ بالوں کے حسن و درازی کے لئے کوئی عورت کسی دوسری عورت کے بالوں کا چوٹا لے کر اپنی چوٹی میں شامل کرے یا اپنے بالوں کا چوٹا لے کر کسی دوسری عورت کی چوٹی میں شامل کر دے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ احادیث سے یہ بات صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ بلا کسی استثناء و قید کے بالوں کا جوڑ لگانا حرام ہے چناچہ ظاہر و مختار مسئلہ بھی یہی ہے لیکن ہمارے (شافعی) علماء نے اس مسئلہ میں یہ تفصیل بیان کی ہے کہ انسان کے بالوں کا جوڑ لگانا تو بلا اختلاف حرام ہے کیونکہ انسان کو جو بزرگی و شرف حاصل ہے، اس کی بناء پر اس کے بالوں اور اس کے دیگر اجزاء جسم سے فائدہ اٹھانا حرام ہے اور اگر انسان کے علاوہ کسی جانور کے پاک بال ہوں تو ان کی چوٹی میں شامل کرنے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کا خاوند یا مالک نہ ہو (یعنی جو عورت آزاد ہو اور مطلقہ یا بیوہ یا کنواری ہو) تو اس کے لئے اپنی چوٹی میں ان بالوں کو شامل کرنا بھی حرام ہے اور اگر عورت خاوند یا مالک والی ہو تو اس کے حق میں تین صورتیں ہیں جن میں سے سب سے زیادہ صحیح صورت یہ ہے کہ وہ خاوند یا مالک کی اجازت کے بعد ان بالوں کو اپنی چوٹی میں شامل کرے تو جائز ہے۔ مالک، طبری اور اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ عورت کے لئے اپنی چوٹی میں کوئی بھی چیز شامل کرنا ممنوع ہے خواہ وہ بال ہوں، خواہ کالے صوف (اون) ہوں، خواہ دھجیاں ہوں اور خواہ ان کے علاوہ کوئی اور چیز ہو، ان حضرات نے اس مسئلہ میں احادیث سے استدلال کیا ہے، جبکہ فقیہ لیث کا قول یہ ہے کہ مذکورہ ممانعت کا تعلق صرف بالوں سے ہے، لہٰذا چوٹی میں بالوں کے علاوہ دوسری چیزیں جیسے صوف وغیرہ شامل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نیز بالوں کو ایسی ڈوری وغیرہ سے باندھنا کہ جو بالوں کی مشابہت نہ رکھے بلا کراہت جائز ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں یہ لکھا ہے کہ سر کے بالوں میں (یعنی چوٹی میں ) انسان کے بال شامل کرنا حرام ہے لیکن صوف یعنی اون کو شامل کرنا جائز ہے۔ گودنے کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے کسی حصہ کی جلد پر سوئیاں یا اسی طرح کی کوئی چیز چبھوئی جائے یہاں تک کہ خون بہنے لگے پھر اس میں سرمہ یا نیل بھر دیا جائے۔ یہ زمانہ جاہلیت کی ایک رسم ہے اور آج کل بعض غیر مسلم قوموں میں اس کا رواج ہے، شریعت اسلامی نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے، نووی فرماتے ہیں کہ یہ چیز گودنے والے اور گدوانے والے دونوں کے لئے حرام ہے اور جسم کے جس حصہ پر گودا جاتا ہے وہ حصہ نجس ہوجاتا ہے، لہٰذا اگر کسی مسلمان نے ناسمجھی سے گدوا لیا ہے اور کسی علاج و معالجہ کے ذریعہ اس کا ازالہ ممکن ہو تو اس کا نشان مٹوا دینا واجب ہے اور اگر کسی حرج و تنگی کے بغیر اس کا ازالہ ممکن نہ ہو، نیز اس بات کا خوف ہو کہ اس کو زائل کرنے کی صورت میں جسم کا وہ حصہ تلف یا بیکار ہوجائے گا یا پوری طرح کام نہیں کرے گا یا اس ظاہری عضو میں بہت بڑا عیب پیدا ہوجائے گا تو اس صورت میں اس کا ازالہ واجب نہیں، تاہم اللہ سے معافی مانگنا اور توبہ و استغفار کرنا چاہئے تاکہ اس پر سے گناہ کا بار ہٹ جائے اور اگر مذکورہ چیزوں میں سے کسی چیز کا خوف نہ ہو تو پھر اس کا ازالہ ہی لازم ہوگا اور اس میں تاخیر کرنے سے گنہگار ہوگا۔
Top