مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4333
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها . رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب .
داڑھی کو برابر کرنے کا ذکر
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی ریش مبارک کو عرض و طول میں یعنی نیچے سے بھی اور دائیں بائیں جانب سے بھی کترتے تھے، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی داڑھی کو ادھر ادھر سے بڑھے ہوئے بال کتروا کر برابر درست کرتے تھے۔ اور آپ ﷺ کا یہ عمل داڑھی کو چھوڑنے اور بڑھانے کے منافی نہیں ہے جس کا حکم دوسری احادیث میں منقول ہے کیونکہ اصل ممانعت کا تعلق منڈانے یا اتنی چھوٹی کرانے سے ہے جو غیر مسلم لوگوں کا شعار ہے ورنہ تو داڑھی کو برابر اور درست رکھنے کے لئے ادھر ادھر سے بڑھے ہوئے بالوں کو کترنا ممنوع نہیں ہے، جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ داڑھی کے طول و عرض میں سے ان بالوں کو ترشتے تھے جو ادھر ادھر بڑھے ہوتے تھے اسی لئے ابن ملک نے کہا ہے کہ داڑھی کے بالوں کو برابر کرنا سنت ہے۔ اور احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ زیادہ بڑھانے کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، چناچہ کچھ حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر داڑھی کے اس حصے کو کتروائے جو مٹھی سے نیچھے ہو تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، یہ قول حضرت ابن عمر ؓ اور تابعین کی ایک جماعت کا ہے اور شعبی اور ابن سیرین نے اس کو اچھا سمجھا ہے، جب کہ حسن قتادہ اور ان کے متبعین نے اس چیز کو (یعنی داڑھی کے اس حصے کے کترنے کو جو مٹھی سے نکلی ہوئی ہو) اچھا نہیں سمجھا ہے ان حضرات نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد اعفوا للحی ( داڑھیوں کو چھوڑ دو ) کے پیش نظر اسی چیز کو بہتر جانا ہے کہ مٹھی سے بڑھی ہوئی داڑھی کو بھی چھوڑے رکھا جائے۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
Top