مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4363
وعن ثوبان قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سافر كان آخر عهده بإنسان من أهله فاطمة وأول من يدخل عليها فاطمة فقدم من غزاة وقد علقت مسحا أو سترا على بابها وحلت الحسن والحسين قلبين من فضة فقدم فلم يدخل فظنت أن ما منعه أن يدخل ما رأى فهتكت الستر وفكت القلبين عن الصبيين وقطعته منهما فانطلقا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكيان فأخذه منهما فقال يا ثوبان اذهب بهذا إلى فلان إن هؤلاء أهلي أكره أن يأكلوا طيباتهم في حياتهم الدنيا . يا ثوبان اشتر لفاطمة قلادة من عصب وسوارين من عاج . رواه أحمد وأبو داود .
اپنے اہل بیت کا راحت وآرام کی زندگی اختیار کرنا آنحضرت ﷺ کے نزدیک ناپسندیدہ
اور حضرت ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب سفر پر روانہ ہوتے تو اپنے اہل و عیال کے لوگوں میں سب سے آخری وقت حضرت فاطمہ ؓ کو عطا کرتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ ؓ کے ہاں جاتے یعنی سفر کے لئے روانگی کے وقت آپ ﷺ پہلے دیگر اہل بیت سے الوداعی ملاقات فرماتے پھر ان سب سے فارغ ہو کر اور سب کو رخصت کر کے آخر میں حضرت فاطمہ ؓ کے پاس تشریف لے جاتے ان سے جو کچھ کہنا سننا ہوتا کہتے اور جو کوئی وصیت و نصیحت کرنی ہوتی وہ کرتے اور ان کو اللہ حافظ کہہ کر کے روانہ ہوجاتے اور پھر جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ ؓ کے ہاں تشریف لے جاتے اور سب سے پہلے ان سے ملاقات کرتے چناچہ (ایک مرتبہ) آنحضرت ﷺ ایک جہاد کے سفر سے واپس آئے تو اس وقت حضرت فاطمہ ؓ نے اپنے مکان کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ لٹکا رکھا تھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے وہ پردہ آرائش کی خاطر لٹکایا تھا) کیونکہ اگر پردہ کی ضرورت کی خاطر لٹکایا ہوا ہوتا تو آنحضرت ﷺ کو کوئی ناگواری نہیں ہوتی) نیز انہوں نے (اپنے دونوں صاحبزادوں) حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ کو چاندی کے دو کڑے پہنا رکھے تھے (یعنی ان میں سب سے ہر ایک کو ایک ایک کڑا یا دو دو کڑے پہنا رکھے تھے) جب آنحضرت ﷺ اپنے معمول کے مطابق سفر سے واپسی میں حضرت فاطمہ ؓ کی ملاقات کے لئے ان کے گھر، تشریف لائے اور یہ چیزیں دیکھیں تو آپ ﷺ ان کے گھر میں داخل نہیں ہوئے، حضرت فاطمہ ؓ سمجھ گئیں کہ جس چیز نے آنحضرت ﷺ کو میرے گھر میں داخل ہونے سے روکا وہ یہ ہے جو آپ ﷺ نے دیکھا ہے (یعنی دروازہ پر پردہ لٹکنا اور حسن و حسین ؓ کے ہاتھوں میں کڑے کا ہونا چناچہ حضرت فاطمہ ؓ نے (فورًا) پردہ کو پھاڑ ڈالا اور دونوں صاحبزادوں کے ہاتھ سے دونوں کڑوں کو اتار لیا اور ان کو توڑ ڈالا پھر دونوں صاحبزادے ان ٹوٹے ہوئے کڑوں کو لے کر) روتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گئے، آپ ﷺ نے آپنے رشتہ داروں میں کسی شخص کا نام لے کر فرمایا کہ اس کے گھر والوں کو دے آؤ کیونکہ وہ محتاج و ضرورت مند تھے، چونکہ یہ دونوں بچے میرے اہل بیت میں سے ہیں اس لئے میں اس کو اچھا نہیں سمجھتا کہ یہ دنیاوی زندگی میں بہترین غذا کھائیں (یعنی میرے نزدیک یہ پسندیدہ) نہیں ہے کہ میرے یہ بچے بہترین غذاؤں اور نفیس پوشاک و اسباب سے لذت و فائدہ اٹھائیں یا آپ ﷺ نے بہترین غذا سے عیش و آرام کی زندگی اختیار کرنا اور دنیا کی لذتیں حاصل کرنا مراد لیا۔ نیز آپ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا یہ واضح فرمایا کہ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں اس چیز کو اختیار کرتا ہوں کہ وہ اس دنیا میں فقر و زہد اور سختی و مشقت کی زندگی اپنائیں تاکہ آخرت میں ان کے درجات بلند ہوں اور ان کا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آیت (اذہبتم طیباتکم فی حیوتکم الدنیا) لیکن اس کے ساتھ ہی آنحضرت ﷺ چشم تصور سے اپنی لخت جگر فاطمہ ؓ کی شکستہ دلی کو بھی دیکھ رہے تھے اس لئے ان کے تئیں شفقت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ثوبان! فاطمہ کے لئے عصب کا ایک ہار اور دونوں بچوں کے لئے ہاتھی دانت کے دو کڑے خرید لینا تاکہ فاطمہ ؓ کی بھی دلجوائی ہوجائے اور بچوں کی اشک شوئی ہوجائے۔ (احمد، ابوداؤد )
Top