مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4379
وعن ابن المسيب سمع يقول إن الله طيب يحب الطيب نظيف يحب النظافة كريم يحب الكرم جواد يحب الجود فنظفوا أراه قال أفنيتكم ولا تشبهوا باليهود . قال فذكرت ذلك لمهاجرين مسمار فقال حدثنيه عامر بن سعد عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله إلا أنه قال نظفوا أفنيتكم . رواه الترمذي .
گھر کے صحن کو صاف ستھرا رکھو
اور حضرت ابن مسیب (تابعی) سے روایت ہے کہ ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا گیا کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکی پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ نہایت ستھرا ہے ستھرائی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ کرم کرنے والا ہے کرم کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت سخی اور عطا کرنے والا ہے، سخاوت و عطا کو پسند کرتا ہے لہٰذا تم صاف ستھرا رکھو (حضرت ابن مسیب سے روایت کرنے والے) راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ ابن مسیب نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنے صحنوں کو (یعنی فنظفوا کے بعد افنیتکم کا لفظ بھی کہا تھا گویا اس جگہ پورا جملہ یہ ہے کہ تم اپنے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو) اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو (جو اپنے گھروں کے صحن و آنگن کو کوڑے کرکٹ سے ناپاک و گندہ رکھتے ہیں )۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسیب کا یہ قول حضرت مہاجر بن مسمار تابعی کے سامنے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت عامر بن سعد (تابعی) نے اور انہوں نے اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ (صحابی) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے۔ لیکن مہاجر نے جو حدیث نقل کی اس میں انہوں نے یہ نقل کیا کہ تم اپنے گھروں کے صحن کو صاف ستھرا رکھو۔ یعنی ان کی روایت میں افنیتکم کا لفظ صریحا مذکور ہے جب کہ ابن مسیب کی روایت میں یہ لفظ گمان کے درجہ میں نقل کیا گیا ہے۔

تشریح
اللہ تعالیٰ پاک ہے یعنی وہ ہر عیب، ہر نقصان، ہر برائی اور ہر اس چیز سے پاک و منزہ ہے جو شان الوہیت اور شان ربوبیت کے منافی ہو۔ یحب الطیب میں لفظ طیب طاء کے زیر کے ساتھ ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خوش کرداری و خوش کلامی محبوب و پسندیدہ ہے، یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک خوشبو ایک پسندیدہ چیز ہے اور چونکہ اس ساری چیزوں کی بنیاد پاکی و پاکیزگی ہے لہذا جو بندہ ان چیزوں کو اختیار و استعمال کر کے اپنے اندر پاکی و پاکیزگی پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے اور اس کے عمل سے خوش ہوتا ہے، ایک نسخہ میں یہ لفظ طاء کے زبر اور یاء مشددہ کے زیر کے ساتھ یعنی طیب لکھا ہوا ہے اس صورت میں اس سے مراد وہ شخص ہوگا جو طیبات یعنی عقائد و خیالات کی اچھائی، اقوال اور زبان وبیان کی پاکیزگی اور اعمال و اخلاق کی بلندی و نیک خوئی کے اوصاف کا حامل ہو، نظافۃ جس کا ترجمہ ستھرائی کیا گیا ہے کے معنی ظاہر و باطن کی صفائی و پاکی کے ہیں۔ طیبی کہتے ہیں کہ گھروں کے صحن کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم اصل میں کرم اور جود اختیار کرنے کا کنایہ ہے، یعنی اس حکم سے اصل مقصد یہ تلقین کرنا ہے کہ اپنے اندر عطاء و بخشش اور سخاوت و مہمان نوازی کے اوصاف پیدا کرو اور ظاہر ہے کہ گھر کی صفائی ستھرائی اس وصف کی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ جس گھر کا صحن و آنگن صاف ستھرا رہتا ہے اور مکان کے در و دیوار سے صفائی و سلیقہ شعاری ہویدا ہوتی ہے اس گھر میں لوگوں کو اور مہمانوں کے آنے اور ٹھہرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
Top