مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1020
وَعَنْہُ قَالَ اَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلٌ اَعْمٰی فَقَالَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہُ لَےْسَ لِیْ قَائِدٌ ےَقُوْدُ نِیْ اِلَی الْمَسْجِدِ فَسَاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ ےُّرَخِّصَ لَہُ فَےُصَلِّیْ فِیْ بَےْتِہٖ فَرَخَّصَ لَہُ فَلَمَّا وَلّٰی دَعَاہُ فَقَالَ ھَلْ تَسْمَعُ النِّدَآءَ بِالصَّلٰوۃِقَالَ نَعَمْ قَالَ فَاَجِبْ۔ (صحیح مسلم)
نا بینا آدمی کو بھی جماعت میں شریک ہونے کی تاکید
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک نا بینا آدمی (حضرت عبداللہ ابن مکتوم) سرور کونین ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے ایسا کوئی رہبر نہیں ہے جو مجھے مسجد میں لے جائے۔ پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ انہیں گھر میں نماز پڑھ لینے کی رخصت یعنی اجازت دے دی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی (اس کے بعد) جب وہ مجلس نبوی ﷺ سے واپس لوٹے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں پھر بلایا اور ان سے فرمایا کہ کیا تم نماز کی اذان سنتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے مسجد میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ (صحیح مسلم) نشریح صحیحین کی حدیث میں منقول ہے کہ جب حضرت عتبان ابن مالک ؓ نے اپنی بینائی کا شکوہ کیا (کہ اس کی وجہ سے میں مسجد میں حاضری سے معذور ہوں) تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ اپنے گھر ہی میں نماز پڑھ لیا کریں۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ نابینا آدمی کو جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے مگر جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ کو جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں دی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فضلائے مہاجرین میں سے تھے ان کی شان کے لائق یہی بات تھی کہ وہ اولیٰ پر عمل کریں یعنی جماعت میں حاضر ہوا کریں چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں پہلے تو اجازت دے دی مگر پھر وحی آجانے یا اجتہاد کے بدل جانے کی وجہ سے آپ ﷺ نے اجازت واپس لے لی، اس حدیث میں اذان سننے کے بعد مسجد میں حاضری کی ضرورت و اہمیت کو کمال مبالغے کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔
Top