مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1030
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ اِنِّی سَمِعْتُ حِبِّی اَبَاا لْقَاسِمِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ لَا تُقْبَلُ صَلَاۃُ اِمْرَأَۃٍ تَطَیَّبَتْ لِلْمَسْجِدِ حَتّٰی تَغْتَسِلَ غُسْلَھَا مِنَ الْجَنَابَۃِ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَی اَحْمَدُ وَالنَّسَائِیُّ نَحْوَہُ۔
خوشبو لگا کر مسجد میں جانے والی عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو مسجد جانے کے لئے خوشبو لگائے یہاں تک کہ وہ اگر خوشبو لگائے ہوئے ہو تو اچھی طرح) غسل نہ کرے جیسا کہ ناپاکی کا غسل کیا جاتا ہے۔ (سنن ابوداؤد، مسند احمد بن حنبل، سنن نسائی)

تشریح
اس حدیث میں بھی اسی بات سے شدت کے ساتھ منع کیا گیا ہے کہ کوئی عورت خوشبو لگا کر مسجد میں جانے کی جرأت نہ کرے یہاں تک کہ اگر کسی نے خوشبو لگا رکھی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ مسجد جاتے وقت غسل کرلے یعنی اگر اس نے پورے بدن پر خوشبو لگا رکھی ہے تو سارا بدن پانی سے دھو ڈالے تاکہ اس کے بدن سے خوشبو جاتی رہے اور اگر بدن کے کسی خاص حصے پر خوشبو لگی ہوئی ہو تو صرف اسی حصے کو دھو ڈالے اور اگر خوشبو کپڑوں پر لگی ہوئی ہو تو اس صورت میں وہ کپڑے تبدیل کر دئیے جائیں۔ خوشبو لگے ہوئے بدن کو دھونے یا کپڑے کو بدلنے کا یہ حکم اسی صورت میں ہے جب کہ مسجد میں جانے کا ارادہ کرلے۔ اگر مسجد میں جانے کا ارادہ نہ ہو بلکہ گھر ہی میں نماز پڑھنی ہو تو پھر اس حکم پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ حضرت ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حکم خوشبو لگا کر مسجد میں جانے والی عورتوں کو زجر میں مبالغے کے طور پر ہے کیونکہ اس صورت میں فتنہ و شر زیادہ پیدا ہوتا ہے معطر عورت کی طرف لوگوں کی رغبت زیادہ ہوتی ہے۔
Top