مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1090
وَعَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَـلَاثَۃٌ لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُھِمْ اَذَا نُھُمْ اَلْعَبْدُ الْاٰبِقُ حَتّٰی یَرْجِعَ وَ امْرَأَۃٌ بَاتَتْ وَزَوْجُھَا عَلَیْھَا سَاخِطٌ وَاِمَامُ قَوْمٍ وَھُمْ لَہ، کَارِھُوْنَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔
نا پسندیدہ امام کی نماز قبول نہیں ہوتی
اور حضرت ابوامامہ ؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی نماز ان کے کانوں سے بلند نہیں ہوتی (یعنی درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی) ایک تو اپنے مالک کے ہاں سے بھاگا ہوا غلام جب تک کہ وہ (اپنے مالک کے پاس) واپس نہ آجائے دوسری وہ عورت جو اس حالت میں رات گزرا دے کہ اس کا خاوند اس سے ناراض ہو تیسرا وہ امام جسے اس کی قوم پسند نہ کرتی ہو۔ (امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے)

تشریح
غلام کے حکم میں باندی بھی داخل ہے یعنی اگر باندی بھی اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جائے تو اس کا بھی یہی حال ہوگا کہ جب تک وہ اپنے آقا کے پاس واپس نہ آجائے گی اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ عورت کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے تو یہ اس شکل میں ہے جب کہ عورت بدخلق ہو اور اس کا خاوند اس کی بد خلقی، نافرما نبرداری اور بےادبی کی وجہ سے اس سے ناراض ہو اور اگر خاوند ہی بدخلق ہو اور اپنی بیوی سے ناحق ناراض و خفا ہے تو عورت گنہگار نہیں ہوگی بلکہ مرد ہی گنہگار ہونگے۔ امام کے بارے میں حضرت ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ امام پر یہ گناہ اس وقت ہوگا جب کہ اس کی بدعت اور اس کے فسق یا اس کے جہل کی وجہ سے اس کے مقتدی اس سے ناراض ہوں اور اگر مقتدی کسی دینوی غرض کے تحت اس سے کراہت و عداوت رکھتے ہوں تو امام مطلقاً گنہگار نہیں ہوگا اور نہ ایسے امام کے حق میں حدیث کا مذکورہ بالا حکم ہے بلکہ مقتدی ہی گنہگار رہیں گے۔ اتنی بات سمجھ لیجئے کہ حدیث میں مذکورہ امام سے مراد بھی نماز کا امام بھی ہے اور حاکم و خلیفہ بھی یعنی اگر کسی حاکم اور خلفیہ سے اس کی رعایا اس کی بداعمالیوں اور غلط کاریوں کی وجہ سے نا خوش ہوگی تو وہ بھی ایسا ہی گنہگار ہوگا۔
Top