مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1095
عَنِ ابْنِ عُمَرَص قَالَ لَمَّا قَدِمَ الْمُھَاجِرُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ الْمَدِےْنَۃَ کَانَ ےَؤُمُّھُمْ سَالِمٌ مَّوْلٰی اَبِیْ حُذَےْفَۃَ وَفِےْھِمْ عُمَرُ وَ اَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِالْاَسَدِ۔
آزد کردہ غلام کی امامت
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں پہلے آنے والے مہاجرین آئے تو ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالم ؓ انہیں نماز پڑھاتے تھے اور ان (مقتدیوں) میں حضرت عمر، حضرت ابوسلمہ ابن عبدالاسد ؓ (بھی) ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری )

تشریح
حضرت سالم ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام اور بہت اچھے قاری تھے ان کا شمار نہایت بزرگ اور اونچے درجے کے قراء صحابہ میں ہوتا تھا رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ قرآن کریم چار لوگوں سے حاصل کرو اور ان چار لوگوں میں حضرت سالم کا نام بھی شمار کیا تھا۔ حضرت عمر حضرت ابوسلمہ ابن عبدالاسد اور ان جیسے دوسرے جلیل القدر اور باعظمت و فضیلت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں حضرت سالم ؓ کے امام مقرر ہونے کی وجہ یا تو یہ تھی کہ یہ بہت اچھے قاری تھے یا پھر اس میں کوئی اور مصلحت ہوگی۔
Top