مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1103
وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ اَبی الْعَاصِ ص قَالَ آخِرُ مَا عَہِدَ اِلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَمَمْتَ قَوْمًا فَاَخِفَّ بِھِمُ الصَّلٰوۃَ (رواہ مسلم وَ فِی رِوَایَۃٍ لَہُ) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَہُ اُمَّ قَوْمَکَ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَجِدُ فِیْ نَفْسِیْ شَیْئًا قَالَ اُدْنُہُ فَاَحْبَسَنِی بَیْنَ یَدَیْہِ ثُمَّ وَضَعَ کَفَّہُ فِیْ صَدْرِی بَیْنَ ثَدْیَیَّ ثُمَّ قَالَ تَحَوَّلْ فَوَضَعَھَا فِی ظَہْرِی بَیْنَ کَتِفَیَّ ثُمَّ قَالَ اُمَّ قَوْمَکَ فَمَنْ اَمَّ قَوْماً فَلْیُخَفِّفْ فَاِنَّ فِیْھِمُ الْکَبِیْرَ وَاِنَّ فِیْھِمُ الْمَرِیْضَ وَاِنَّ فِیْھِمُ الضَّعِیْفَ وَاِنَّ فِیْھِمْ ذَالْحَاجَۃِ فَاِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ وَحْدَہُ فَلْیُصَلِّ کَیْفَ شَائَ۔
بوڑھے اور بیمار مقتدیوں کی رعایت امام کے لئے ضروری ہے
حضرت عثمان ابن ابی العاص ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جو آخری وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ جب تم لوگوں کی امامت کرو تو انہیں ہلکی نماز پڑھاؤ۔ ( مسلم) اور کی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان غنی ؓ سے فرمایا کہ اپنی قوم کی امامت کرو۔ حضرت عثمان ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے اپنے دل میں کچھ کھٹک محسوس ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ میرے قریب آؤ۔ (جب میں آپ ﷺ کے قریب آگیا تو) آپ ﷺ نے مجھے اپنے آگے بٹھایا اور میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا پھر فرمایا کہ پشت پھیرو (میں نے اپنی پشت آپ ﷺ کی جانب کردی) چناچہ آپ ﷺ نے میری پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان اپنا دست مبارک پھیر کر فرمایا کہ جاؤ اور اپنی قوم کی امامت کرو اور یہ (یہ یاد رکھو) کہ جب کوئی آدمی کسی قوم کا امام بنے تو اسے چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور بیمار بھی ان میں کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور حاجتمند بھی ہاں جب کوئی تنہا نماز پڑھے تو اسے اختیار ہے جس طرح چاہیے پڑھے۔

تشریح
حضرت عثمان ؓ کے ارشاد انی اجد فی نفسی شیا (یعنی مجھے اپنے دل میں کچھ کھٹک محسوس ہوتی ہے) کا مطلب یہ تھا کہ میں امامت کے حقوق کی ادائیگی سے اپنے آپ کو عاجز پاتا ہوں یا کچھ وسوسے اور شبہات ہیں جو دل میں آتے ہیں یا یہ کہ امامت کے وقت میرے دل کے اندر ایک قسم کی برتری اور غرور کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کیفیات کے دفعیہ کے لئے ان کے سینے اور پشت پر اپنا دست مبارک پھیرا جس کی برکت سے ان کی دل کی وہ کھٹک جاتی رہی جس کی موجودگی انہیں امامت پر آمادہ نہیں ہونے دیتی تھی۔ فاذا صلی احد کم الخ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والا اپنی نماز کے معاملے میں مختار ہے چاہے تو وہ طویل نماز پڑھے چاہے مختصر لیکن علماء لکھتے ہیں کہ تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ طویل نماز پڑھے۔ اس زمانہ کے ائمہ کا معاملہ بڑا عجیب ہے جب وہ لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں تو بہت زیادہ طوالت سے کام لیتے ہیں مگر جب تنہا نماز پڑھتے ہیں تو صرف اتنے ہی اختصار پر اکتفا کرتے ہیں جس سے نماز ادا ہوجائے۔ ائمہ کو اس طریق کار کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
Top