مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1123
وَعَنْ جَابِرِ قَالَ کَانَ مُعَاذُ یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلماَلْعِشَاءَ ثُمَّ یَرْ جِعُ اِلٰی قَوْمِہٖ فَیُصَلِّیْ بِہِمُ الْعِشَاءَ وَہِیَ لَہُ نَافِلَۃٌ (رواہ البُخَارِیُّ)
حضرت معاذ کے دو مرتبہ نماز پڑھنے کی حقیقت
اور حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل ؓ عشاء کی نماز (پہلے تو) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھتے تھے پھر اپنی قوم میں آتے اور ان کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور وہ ان کے لئے نفل ہوتی۔

تشریح
حضرت معاذ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پہلے تو عشاء کی نماز پڑھتے وقت عشاء کی سنت کی نیت کرتے ہوں گے یا نفل نماز کی نیت کرلیتے ہوں گے پھر اپنی قوم کے پاس آکر ان کی امامت کرتے اور اس وقت فرض نماز پڑھتے تھے۔ حدیث کے آخری الفاظ وھی لہ نا فلۃ کا مطلب سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیجئے کہ دو مرتبہ نماز پڑھنے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ ایک آدمی نے اپنے مکان میں تنہا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھی اس کے بعد مسجد آیا تو دیکھا کہ وہاں اسی نماز کی جماعت ہو رہی ہے تو جو پہلے پڑھ چکا ہے۔ وہ مسجد میں جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے جماعت میں شریک ہو کر دوبارہ نماز پڑھ لیتا ہے اس صورت میں فرض نماز کی ادائیگی چونکہ پہلے ہوچکی ہے اس لئے یہ جماعت کی نماز اس کے لئے نفل ہوجائے گی۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی کسی مسجد کا امام ہے وہ اپنی مسجد میں نماز پڑھانے سے پہلے کسی خاص موقعہ پر یا کسی خاص آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے بہ نیت نفل نماز پڑھ لیتا ہے پھر اس کے بعد اپنی مسجد میں آکر لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے ایسی صورت میں بعد کی نماز فرض ادا ہوگی اور پہلی نماز نفل ہوجائے گی۔ اس تفصیل کو سمجھنے کے بعد اس جملے کا مطلب آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ دوسری نماز جو جماعت کے ساتھ فرض یا نفل ادا ہوتی ہے یا پہلی نماز دو مرتبہ پڑھنے والے کے حق میں نافلہ یعنی خیرو بھلائی کی زیاتی اور ثواب کی کثرت کا باعث ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے اس جملے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ دوسری نماز جو حضرت معاذ ؓ قوم کے ہمراہ پڑھتے تھے حضرت معاذ ؓ کی نفل نماز اور ان کی قوم کی عشاء کی فرض نماز ہوتی تھے۔ حقیقت سے دور ہے کیونکہ یہ بات تو اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے جب کہ اس مطلب کو بیان کرنے والے حضرت معاذ کا کوئی ایسا قول بھی پیش کریں جس میں حضرت معاذ خود یہ بتائیں کہ ان کی نیت دونوں مرتبہ کیا ہوتی تھی کیونکہ نیت کی حقیقت تو اس وقت تک معلوم نہیں ہوتی جب تک کہ نیت کرنے والا اپنی نیت کے بارے میں خود نہ بتائے کہ اس کی نیت کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت معاذ نماز پڑھتے وقت نیت دل میں کرتے ہوئے گے زبان سے اظہار نہیں کرتے ہوں گے جیسا کہ ابن ہمام نے نقل کیا ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ زبان سے نیت کرتے تھے پھر یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ جملہ وہی نافلہ حدیث کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ اضافہ ہے جو صحیح روایتوں میں موجود نہیں ہے چناچہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت امام شافعی نے اپنے اجتہاد و مسلک کے مطابق اس کا اضافہ کیا ہے پھر یہ مشکوٰۃ کے اصل نسخے میں یہ جگہ خالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ نے سنن کے کسی بھی طریق سے یہ جملہ نہیں پایا۔ علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ علماء حدیث کا یہ قول ہے کہ وھی لہ نافلۃ حدیث جابر میں غیر محفوظ ہے۔ نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں ائمہ کا جو اختلاف ہے اسے پوری وضاحت کہے ساتھ مظاہر حق جدید کی قسط ٩ میں باب القراۃ فی الصلوٰۃ کی حدیث نمبر ١٠ کے فائدہ کے ضمن میں بیان کیا جا چکا ہے۔
Top