مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1128
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ رَجُلًا سَأَلَہ، فَقَالَ اِنِّی اُصَلِّی فِی بَیْتِی ثُمَّ اَدْرِکُ الصَّلَاۃَ فِی الْمَسْجِدِ مَعَ الْاِمَامِ اَفَاُصَلِّی مَعَہ، قَالَ لَہ، نَعَمْ قَالَ الرَّجُلُ اَیَّتَھُمَا اَجْعَلُ صَلَا تِی قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَذٰلِکَ اِلَیْکَ اِنَّمَا ذٰلِکَ اِلَی اﷲِ عَزَّوَجَلَّ یَجْعَلُ اَیَّتَھُمَا شَائَ۔ (رواہ مالک)
دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے ایک آدمی نے پوچھا میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیتا ہوں پھر مسجد میں (ایسے وقت پہنچتا ہوں کہ) لوگ امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوتے ہیں تو کیا میں بھی اس امام کے پیچھے نماز پڑھوں؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ ہاں! پھر اس آدمی نے پوچھا کہ (ان میں سے) اپنی (فرض) نماز کسے قرار دوں؟ (پہلی یا دوسری کو) حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ نے فرمایا ( کیا یہ تمہارا کام ہے؟ (یعنی ان میں سے کسی ایک کو فرض نماز مقرر کرنا تمہارا کام نہیں ہے) یہ تو اللہ بزرگ و برتر کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے چاہے تمہاری (فرض) نماز قرار دے۔ (مالک)

تشریح
یہ حدیث بعض شوافع اور امام غزالی (رح) کے اس قول کی تائید کرتی ہے کہ ان دونوں نمازوں میں ایک نماز بلا تعین فرض ادا ہوتی ہے خواہ پہلی نماز ہو یا دوسری۔ لیکن اکثر احادیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے کہ ان دونوں میں پہلی نماز فرض ادا ہوتی ہے اور دوسری نماز نفل ہوجاتی ہے اور یہی بات قرین قیاس بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ کوئی آدمی کسی ایسے کام کو جو اس کے لئے ایک وقت میں ایک مرتبہ کرنا ضروری ہو اگر دو مرتبہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ بری الذمہ پہلی مرتبہ ہوتا ہے نہ کہ دوسری مرتبہ، اسی طرح فرض نماز کی ادائیگی پہلی مرتبہ ہوتی ہے اور دوسری مرتبہ کی نماز اس کے حق میں نفل کی صورت میں فضیلت وسعادت کا سرمایہ بن جاتی ہے۔
Top