مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1160
وَعَنْ عَطَاءٍ قَالَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ اِذَا صَلَّی الجُمْعَۃَ بِمَکَّۃَ تَقَدَّمَ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ یَتَقَدَّمُ فَیُصَلِّی اَرْبَعًا وَاِذْا کَانَ بِالمَدِیْنَۃِ صَلَّی الجُمْعَۃَ ثُمَّ رَجَعَ اِلٰی بَیْتِہٖ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ وَلَمْ یُصَلِّ فِی الْمَسْجِدِ فَقِیْلَ لَہ، فَقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَفْعَلُہ، رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ فِی رِوَایَۃِ التِّرْمِذِیِّ قَالَ رَأَیْتُ ابْنُ عُمَرَ صَلَّی بَعْدَ الْجُمْعَۃَ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ صَلَّی بَعْدَ ذٰلِکَ اَرْبَعًا۔
فرض ونوافل کے درمیان فرق کرنا چاہیے
اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ جب مکہ میں جمعہ کی نماز پڑھ چکتے تو (جس جگہ فرض نماز پڑھتے اس سے) آگے بڑھ جاتے اور دو رکعت پڑھتے اس کے بعد پھر آگے بڑھتے اور جب آپ مدینہ میں ہوا کرتے تو (یہ معمول تھا کہ) جمعہ کی (فرض) نماز پڑھ کر اپنے مکان میں تشریف لاتے اور گھر میں دو رکعت نماز پڑھتے مسجد میں (فرض کے علاوہ کوئی نماز) نہیں پڑھتے تھے، جب ان سے اس (گھر میں پڑھنے اور مسجد میں نہ پڑھنے) کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ (اس لئے کہ) رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد) اور جامع ترمذی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عطاء نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر کو ؓ کو دیکھا ہے کہ وہ جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھ کر پھر چار رکعت پڑھتے تھے۔

تشریح
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کا فرض پڑھ کر سنت پڑھنے کے لئے آگے بڑھ جانا بمنزلہ مسجد سے نکلنے کے تھا جیسا کہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے ارشاد میں مذکور ہوا۔ علماء نے لکھا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے معمول کے درمیان فرق غالباً اس لئے تھا کہ مدینہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کا مکان مسجد کے قریب تھا اور مکہ میں چونکہ مسافر ہوتے تھے اور قیام گاہ حرم سے فاصلے پر ہوتی تھی اس لئے مدینہ میں تو آپ کا معمول یہ ہوتا تھا کہ فرض پڑھ کر اپنے مکان پر تشریف لے جاتے تھے اور وہاں سنتیں پڑھتے تھے مگر مکہ میں مکان کے دور ہونے کی وجہ سے سنتیں بھی مسجد ہی میں پڑھ لیتے تھے مگر جگہ بدل کر دونوں نمازوں کے درمیان فرق کرتے رہتے تھے۔ اور اس طرح آگے بڑھنے کو گھر کے قائم مقام کرلیتے تھے۔ مکہ اور مدینہ کے معمول کے درمیان دوسرا فرق یہ تھا کہ مکہ میں تو آپ جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھا کرتے تھے اور مدینہ میں دوہی رکعت پڑھتے تھے چناچہ مکہ میں اس زیادتی کی وجہ یہ تھی کہ حرم میں چونکہ نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے وہاں زیادہ نماز پڑھتے تھے۔ چونکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جمعہ کے بعد سنتیں چار رکعت ہیں اس لئے ملا علی قاری نے حدیث کے الفاظ کہ حضرت عبداللہ ابن عمر جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے پھر اس کے بعد (آگے بڑھ کر) چار رکعت پڑھتے تھے کا مطلب یہ لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ پہلے جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے چار رکعتیں پڑھنی شروع کردیں یعنی ان دو رکعتوں میں جو ان کے نزدیک احادیث سے ثابت تھیں اور جنہیں آپ پہلے پڑھا کرتے تھے دو رکعتوں کا اور اضافہ کردیا اس طرح بعد میں چار رکعت پڑھنے لگے۔ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک جمعہ کے بعد سنتیں چھ رکعتیں ہی ہیں یعنی وہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کی فرض نماز پڑھ کر پہلے چار رکعت سنت پڑھی جائیں پھر اس کے بعد دو رکعت سنت اور پڑھی جائیں۔ فقہ حنفیہ میں سنتوں کی تفصیلی تعداد چونکہ یہ بات ختم ہو رہی ہے اس لئے مناسب ہے کہ اس موقع پر تمام نمازوں کی سنتوں کی تفصیلی تعداد ذکر کردی جائے تاکہ وہ ذہن میں محفوظ رہیں۔ فجر کے وقت فرض سے دو رکعت سنت موکدہ ہیں ان کی تاکید تمام مؤ کدہ سنتوں سے زیادہ ہے یہاں تک کہ بعض روایات میں امام ابوحنیفہ سے ان کا وجوب منقول ہے اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ ان کے انکار سے کفر کا خوف رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ فجر کی سنتیں نہ چھوڑو چاہے تمہیں گھر کچل ڈالیں یعنی جان جانے کا خوف ہو تب بھی نہ چھوڑو، اس سے مقصود صرف تاکید اور ترغیب ہے ورنہ جان کے خوف سے تو فرائض کو چھوڑنا بھی جائز ہے۔ ظہر کے وقت فرض سے پہلے چار رکعت ایک سلام سے اور فرض کے بعد دو رکعت سنت موکدہ ہیں۔ جمعہ کے وقت فرض سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے سنت مؤ کدہ ہیں اور فرض کے بعد بھی ایک ہی سلام سے چار رکعتیں سنت ہیں۔ عصر کے وقت کوئی سنت موکدہ نہیں، ہاں فرض سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے مستحب ہیں۔ مغرب کے وقت فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤ کدہ ہیں۔ عشاء کے وقت فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤ کدہ ہیں اور فرض سے پہلے کی چار رکعتیں ایک سلام سے مستحب ہیں۔ وتر کے بعد بھی دو رکعتیں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں لہٰذا وتر کے بعد کی دو رکعت مستحب ہیں۔
Top