مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1163
وَعَنْھَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ فَاِنْ کُنْتُ مُسْتَےْقِظَۃً حَدَّثَنِیْ وَاِلَّا اضْطَجَعَ۔(صحیح مسلم)
فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان بات چیت کرنا
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو مجھ سے بات چیت میں مشغول ہوجاتے اور اگر میں سوتی ہوئی ہوتی تو ( آپ ﷺ بھی لیٹ جاتے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت ابن مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان فرق کرنا جائز ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس وقت (یعنی فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان) اپنے اہل خانہ سے بات چیت میں مشغول ہونا مستحب ہے، گویا حضرت ابن مالک کے ارشاد کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ فرض اور سنت نمازوں کے درمیان گفتگو کرنا نماز کو یا اس کے ثواب کو ختم کردیتا ہے یہ قول غلط ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا محور دنیا نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ ﷺ کی گفتگو دینی اور اخروی موضوع سے متعلق ہوتی تھی، اس لئے اتنا تو ماننا ہی پڑھے گا کہ فرض و سنت نمازوں کے درمیان دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونا خلاف اولی ہے۔ کیونکہ سنت نمازوں کی مشروعیت کی حکمت ہی یہ ہے کہ فرض نماز پڑھنے والا آدمی پہلے سے کچھ نمازیں پڑھ کر حالت کمال کے لئے تیار ہو اور اس سے غفلت و سستی دور ہوجائے تاکہ فرض نماز میں پورے خشوع و خضوع کمال حضور اور عبادت الٰہی کے حقیقی و پر لطف جذبے کے ساتھ شامل ہو سکے اور اس کا دل و دماغ دنیا سے پوری طرح یکسو ہو کر توجہ الی اللہ میں پوری طرح مستغرق ہوجائے، برخلاف اس کے کہ سنت نماز پڑھ کر فرض شروع کرنے سے پہلے دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونا اس حکمت کے خلاف ہے کیونکہ اس طرح دل و دماغ شوق و حضوری سے الگ ہو کر دنیا کی باتوں کے چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام وغیرہ سے بعض علماء نے طلوع فجر کے بعد نماز فجر ادا کرنے سے پہلے کسی دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونے کو مکروہ کہا ہے ہاں ذکر اللہ یا ایسا دنیاوی کلام جس کی حقیقت میں اس وقت ضرورت ہو اس سے مستثنی ہے۔ چناچہ احمد، اسحاق کا یہی قول ہے۔ لہٰذا اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی سنت نماز پڑھ کر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے جو کلام کرتے تھے یا تو وہ دینی اور اخروی ہوتا تھا یا پھر کسی حاجت اور ضرورت کی بنا پر آپ ﷺ ان سے گفتگو میں مشغول ہوتے تھے، چناچہ اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ان کانت لہ الی حاجۃ کلمنی (اگر آپ ﷺ کو کوئی ضرورت مجھ سے متعلق ہوتی تو آپ ﷺ مجھ سے گفتگو کرتے) بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
Top