مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1209
وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ اَبِی الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ کَانَ لِدَاؤدَ عَلَیْہِ السَّلامُ مِنَ اللَّیْلِ سَاعَۃٌ یُوْقِظُ فِیْھَا اَھْلَہ، یَقُوْلُ یَا اٰلَ دَاؤدَ قَوْمُوْا فَصَلُّوْ فَاِنَّ ھٰذِہٖ سَاعَۃٌ یَسْتَجِیْبُ اﷲُ عَزَّوَ جَلَّ فِیْھَا الدُّعَآءَ اِلَّالِسَاحِرٍ اَوْعَشَّارٍ۔ (رواہ احمد بن حنبل)
رات کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عبادت اور ساعت قبولیت
اور حضرت عثمان بن العاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت داؤد کے لئے رات ( کے آخری نصف حصہ میں) ایک وقت مقرر تھا جس میں وہ اپنے اہل خانہ کو جگاتے اور فرماتے کہ آل داؤد! اٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ یہ ایسا وقت ہے جس میں اللہ بزرگ و برتر دعا کو قبول فرماتا ہے سوائے جادوگر اور عشار (کی دعا) کے (یعنی ان دونوں کی دعا اس وقت بھی قبول نہیں ہوتی )۔ (مسند احمد بن حنبل )

تشریح
عشار سے چوکیدار قسم کے وہ راہزن مراد ہیں جو راستوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور لوگوں کے مال ازراہ ظلم لے لیتے ہیں اس سے وہ عمال بھی مراد لئے جاسکتے ہیں جو محصول وغیرہ کی وصولیابی کے لئے مقرر ہوتے ہیں اور ناجائز و غلط طریقے پر لوگوں سے ان کے مال و اسباب غصب کرتے ہیں۔ بہر حال حاصل یہ ہے کہ اس مقدس ساعت اور رحمت الٰہی کے عام فیضان کے اس بابرکت موقع پر بھی ساحر یعنی جادوگر اور عشار کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ ان لوگوں سے اللہ کی مخلوق کو بہت تکلیف پہنچتی ہے اور پروردگار عالم ان لوگوں کے ساتھ کبھی بھی بہتر معاملہ نہیں فرماتا جو اس کی مخلوق کے لئے ایذارسانی اور تکلیف و مصیبت کا سبب بنتے ہیں، وجہ سے بعض عارفین کا یہ عارفانہ ارشاد ہے کہ کمال عبودیت یعنی پوری طرح اللہ کا بندہ ہوجانا چاہیے کہ حکم الٰہی کی تعظیم کی جائے اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ شفقت و مہربانی کا برتاؤ کیا جائے۔
Top