مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1226
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَجِبَ رَبُّنَا مِنْ رَجُلَیْنِ رَجُلٌ ثَارَ عَنْ وِطَائِہٖ وَلِحَافِہٖ مِنْ بَیْنِ حِبِّہٖ وَاَھْلِہٖ اِلَی صلَاَ تِہٖ فَیَقُوْلُ اﷲُ لِمَلاَ ئکَتِہٖ اُنْظُرُوْ اِلَی عَبْدِی ثَاَرَ عَنْ فِرَاشِہِ وَوِطَائِہٖ مِنْ بَیْنِ حِبِّہٖ وَاَھْلِہٖ وَاِلٰی صَلٰوتِہٖ رَغْبَۃً فِیْمَا عِنْدِی وَشَفَقًا مِمَّا عِنْدِی وَرَجُلٌ غَزَافِی سَبِیْلِ اﷲِ فَانْھَزَمَ مَعَ اَصْحَابِہٖ فَعَلِمَ مَا عَلَیْہِ فِی الْاِنْھِزَامِ وَمَالَہُ فِی الرُّجُوْعِ فَرَجَعَ حَتّٰی ھُرَیْقَ دَمُہ، فَیَقُوْلُ اﷲُ لِمَلاَئِکَتِہٖ اُنْظُرُوْاِلَی عَبْدِی رَجَعَ رَغْبَۃً فِیْمَا عِنْدِی وَشَفَقًا مِمَّا عِنْدِی حَتَّی ہُرِیْقَ دَمْہُ۔ (رواہ فی شرح السنۃ)
وہ دو خوش نصیب جن سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے
اور حضرت عبدا اللہ بن مسعود راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا ہمارا رب دو آدمیوں سے بہت خوش ہوتا ہے ایک تو وہ آدمی جو رات کو اپنے نرم بستر و لحاف سے اور اپنی محبوبہ اور بیوی کے پاس سے (تہجد) کی نماز کے لئے اٹھتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے میرے بندے کی طرف دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں (یعنی جنت اور ثواب) کے شوق سے اور میرے پاس کی چیزوں (یعنی دوزخ اور عذاب) کے ڈر کی وجہ سے اپنے فرش و نرم بستر اور اپنی محبوبہ اور بیوی کو چھوڑ کر اپنی نماز پڑھنے کے لئے اٹھا۔ اور دوسرا وہ آدمی جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور (بغیر کسی شدید عذر کے) اپنے ساتھیوں سمیت میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا، مگر جب اسے بلا عذر میدان جہاد سے بھاگ نکلنے کی سزا اور پھر جنگ میں واپس آجانے کا ثواب یاد آیا تو (میدان کار زار میں) واپس آگیا اور (اللہ کے دشمنوں سے) اس قدر لڑا کہ جام شہادت نوش کیا، چناچہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ میرے بندے کی طرف (بنظر تعجب) دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں (یعنی جنت وثواب) کے شوق میں اور میرے پاس کی چیزوں (یعنی دوزخ و عذاب) کے خوف سے (میدان جنگ میں) لوٹ آیا اور اللہ کے راستہ میں یہاں تک لڑا کہ اپنی جان بھی دیدی۔ (شرح السنۃ)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ رات کے پر سکون ماحول اور آرام میں کسی آدمی کے لئے نرم بستر، آرام دہ لحاف اور محبوب بیوی کا قرب ہی سب سے زیادہ پسندیدہ اور پیاری چیزیں ہوتی ہیں مگر اس کے باجود وہ آدمی اپنے رب کی عبادت اور اس کی جزاء و انعام کے شوق میں ان سب چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے اور پروردگار کے حضور اپنی بندگی و عبودیت کا نذرانہ پیش کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی تمام پسندیدہ چیزیں دنیا میں تو قلب و دماغ کے سکون اور انسانی عیش و مسرت کا سامان بن سکتی ہیں مگر نہ تو یہ قبر میں نفع پہنچائیں گی اور نہ حشر میں کامیابی و سرخروئی کی ضامن ہوں گی۔ قبر اور حشر میں تو صرف پروردگار کی اطاعت اور اس کی عبادت ہی کام آئے گی اور وہی سعادت و کامیابی کی منزل سے ہم کنار کریں گی۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے واسطے عبادت کرنا اور اس پر ثواب کی امید رکھنا اخلاص اور کمال کے منافی نہیں ہے اگرچہ یہ اکمل درجے کے منافی ہے کیونکہ عبادت کے سلسلے میں اکمل درجہ یہی ہے کہ عبادت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لئے کی جائے اور اس سے کوئی غرض مثلاً ثواب کا حصول یا عذاب کا خوف وابستہ نہ ہو لیکن ہاں کوئی آدمی اگر عبادت محض ثواب کے واسطے یا عذاب کے خوف سے کرتا ہے تو اسے یہ نہ جان لینا چاہیے کہ اس کی یہ عبادت، عبادت نہیں صرف تضییع اوقات ہے۔
Top