مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 788
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ صقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلّٰی صَلٰوۃً لَّمْ ےَقْرَأْ فِےْھَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَھِیَ خِدَاجٌ ثَلٰثًا غَےْرُ تَمَامٍ فَقِےْلَ لِاَبِیْ ھُرَےْرَۃَ اِنَّا نَکُوْنُ وَرَآءَ الْاِمَامِ قَالَ اقْرَأْ بِھَا فِیْ نَفْسِکَ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقُوْلُ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی قَسَمْتُ الصَّلٰوۃَ بَےْنِیْ وَبَےْنَ عَبْدِیْ نِصْفَےْنِ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ وَاِذَا قَالَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِےِْمِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ وَاِذَا قَالَ مَالِکِ ےَوْمِ الدِّےْنِ قَالَ مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ وَاِذَا قَالَ اِےَّاکَ نَعْبُدُ وَاِےَّاکَ نَسْتَعِےْنُ قَالَ ھٰذَا بَےْنِیْ وَبَےْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ فَاِذَا قَالَ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِےْمَ صِرَاطَ الَّذِےْنَ اَنْعَمْتَ عَلَےْھِمْ غَےْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَےْھِمْ وَلَا الضَّآلِّےْنَ قَالَ ھٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ۔ (صحیح مسلم)
سورت فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ناقص ادا ہوتی ہے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا جو آدمی نماز پڑھے اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی وہ نماز ناقص ہے (آپ ﷺ نے یہ) تین مرتبہ (فرمایا کہ وہ نماز ناقص ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے (یہ سن کر) کسی نے پوچھا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں (تو اس وقت بھی پڑھیں؟ ) انہوں نے کہا کہ (ہاں! مگر) اپنے دل میں آہستہ سے پڑھو کہ بس تم ہی سن سکو اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ میں نے نماز (یعنی سورت فاتحہ) اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے۔ (اس طرح کہ حمد و ثنا تو میرے لئے ہے اور دعا بندے کے لئے) اور بندہ جو کچھ مانگے وہ اسے دیا جائے گا چناچہ جب بندہ کہتا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ (یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہان کا پروردگار ہے) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری تعریف بیان کی، جب بندہ کہتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ (یعنی اللہ بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے) تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب بندہ کہتا ہے ملک یوم الدین کہ اللہ انصاف کے دن کا مالک ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعظیم کا اظہار کیا ہے جب بندہ کہتا ہے ایاک نَعْبُدُ وَاِیاکَ نَسْتَعِینُ یعنی (اے پروردگار! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے (یعنی عبادت اللہ کے لئے ہیں اور مدد مانگنا بندے کے لئے ہے) اور میرا بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَیھِمْ غَیرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیھِمْ وَلَا الضَّآلِّینَ یعنی ( اے پروردگار) ہم کو سیدھے راستے پر چلا ان لوگوں کے راستے جن پر تیرا فضل و کرم رہا ہے نہ کہ ان کے راستے پر جن پر تیرا غضب رہا ہے اور نہ گمراہوں کے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندہ کے لئے ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور بندہ جو مانگے گا وہ اسے ملے گا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
قسمت الصلوۃ بینی و بین عبدی نصفین (میں نے نماز اپنے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے) میں نے نماز سے مراد سورت فاتحہ ہے جیسے کہ ترجمے میں ظاہر کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے مقتدی کو بھی سورت فاتحہ پڑھنے کے لئے کہا اور مابعد کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب سورت فاتحہ کی ایسی فضیلت ہے تو مقتدی کو بھی سورت فاتحہ پڑھنی چاہئے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ سورت فاتحہ کی سات آیتیں ہیں۔ تین آیتیں یعنی الحمد سے ملک یوم الدین تک تو خالص اللہ تعالیٰ کی مدح و ثنا میں ہیں اور ایک آیت یعنی ایاک نعبد وایاک نستعین میں بندے کی جانب سے حاجت کی طلب اور مدد کی درخواست ہے اور بعد کی جو تین آیتیں ہیں وہ صرف بندے کی دعا پر مشتمل ہیں۔ بسم اللہ سورت فاتحہ کا جزء نہیں ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بسملہ (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم) داخل فاتحہ اور اس کا جزء نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے کیونکہ اگر بسم اللہ کو سورت فاتحہ کا جزء قرار دے کر بجائے ساتھ کے آٹھ آیتیں شمار کی جائیں تو تقسیم صحیح نہیں ہوگی اور ایک طرف تو ساڑھے چار آیتیں ہوجائیں گی اور ایک طرف ساڑھے تین رہ جائیں گی لہٰذا اس صورت میں نصف نصف تقسیم صحیح نہیں رہے گی۔ نیز یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سورت فاتحہ کی سات آیتوں میں سے صراط الذین انعمت علیھم بھی ایک آیت ہے۔ سورت فاتحہ کے سلسلے میں اس باب کے پہلی حدیث کے فائدہ کے ضمن میں آئمہ کے مذاہب کو نقل کیا گیا تھا اور حنفی مسلک کی وضاحت کی گئی تھی لیکن اس موقعہ پر اس بحث میں کچھ تشنہ رہ گئی تھی اس لئے ہم یہاں کچھ وضاحت کے ساتھ اس بحث کو پیش کرتے ہیں۔ مقتدی کو سورت فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں سورت فاتحہ کے سلسلے میں ائمہ کے ہاں دو بحثیں چلتی ہیں اول تو یہ کہ مطلقاً سورت فاتحہ پڑھا فرض ہے یا نہیں؟ چناچہ اس بحث کی توضیح پہلے کی جا چکی ہے کہ امام شافعی (رح) کے نزدیک سورت فاتحہ پڑھنا فرض ہے اور امام اعظم کے نزدیک واجب ہے۔ دوسری بحث یہ ہے کہ سورت فاتحہ مقتدی کو پڑھنی چاہئے یا نہیں؟ حضرت ابوہریرہ ؓ کے اس قول سے تو یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ مقتدی کو سورت فاتحہ پڑھنی چاہئے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) سے صحیح روایت میں منقول ہے کہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے خواہ بلند آواز کی نماز ہو یا آہستہ آواز کی۔ اور یہی حضرت امام احمد کا بھی مسلک ہے، امام مالک کے نزدیک فرض نہیں مگر آہستہ آواز کی نماز میں مستحب ہے ہمارے امام اعطم ابوحنیفہ اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف و امام محمد کا مذہب یہ ہے کہ آہستہ آواز اور بلند آواز دونوں قسم کی نمازوں میں سورت فاتحہ پڑھنا مقتدی پر فرض نہیں ہے بلکہ حنفی فقہاء تو اس کو مکروہ تحریمی لکھتے ہیں۔ امام محمد کے مسلک کی تحقیق ابھی ہم نے اوپر لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم اور صاحبین کا متفقہ طور پر یہ مسلک ہے کہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض نہیں ہے مگر اس سلسلے میں کچھ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے جس کی بنیاد پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امام محمد کا مسلک امام اعظم اور امام ابویوسف سے کچھ مختلف ہے چناچہ ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اور کچھ دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام محمد اس کے قائل ہیں کہ آہستہ آواز کی نماز میں مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے ہم سمجھتے ہیں کہ امام محمد کی طرف اس قول کی نسبت کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کیونکہ امام محمد کی کتابوں سے بالکل صاف طریقہ یہ پر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ میں شیخین یعنی امام اعظم اور امام ابویو سف سے بالکل متفق ہیں۔ چناچہ امام محمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لا قرأَۃَ خلف الا مام فیما جھر فیہ ولا فیما لم یجھر بذلک جاءت عامۃ الاثار وھو قول ابی حنیفہ (رح)۔ نماز خواہ بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی کسی حال میں بھی امام کے پیچھے قرأت نہیں ہے اسی کے مطابق ہمیں بہت سے احادیث پہنچی ہیں اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا ہے۔ نیز امام موصوف نے اپنی دوسری تصنیف کتاب الاثار میں قرأت خلف الامام کے عدم اثبات میں احادیث و آثار کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرمایا وبہ ناخذلانری القراء ۃ خلف الا مام شیء من الصلوۃ یجھر فیہ او لا یجھر فیہ۔ اور یہی (یعنی عدم قرأت خلف الامام) ہمارا بھی مسلک ہے ہم قرأت خلف الامام کو کسی بھی نماز میں خواہ وہ بلند آواز کی نماز ہو یا آہستہ آواز کی نماز روا نہیں رکھتے۔ بہر حال مذکورہ بالا مذہب کو دیکھتے ہوئے یہ بات ظاہر ہوئی کہ سورت فاتحہ کے سلسلہ میں حنفیہ دو چیزوں کے قائل ہیں۔ اول تو یہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا کسی بھی حال میں فرض نہیں خواہ وہ نماز بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی اور دوسری یہ کہ اگر کوئی مقتدی سورت فاتحہ پڑھتا ہے تو گویا وہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس موقعہ پر ہم صرف اتنی بات صاف کریں گے کہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض کیوں نہیں ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں۔ تو جانتا ہے کہ جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ مقتدی پر سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے اس کی سب سے بڑی دلیل اس باب کی پہلی حدیث ہے یعنی لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب ان حضرات کے نزدیک امام کا پڑھنا مقتدی کے حق میں کافی نہیں بلکہ ہر ایک آدمی کو بطور خود پڑھنا ضروری ہے۔ امام اعظم فرماتے ہیں کہ امام کا پڑھنا مقتدی کے لئے کافی ہے۔ جب امام نے پڑھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت نے پڑھا، چناچہ وہ اپنے اس قول کی تائید میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں من کان لہ امام فقراء ۃ الا مام قراء ۃ لہ (یعنی جو آدمی کسی امام کے پیچھے نماز پڑھے۔ تو اس امام کی قرأت اس (مقتدی) کی بھی قرأت سمجھی جائے گی) گو بعض علماء نے اگرچہ اس حدیث کی صحت میں کلام کیا ہے۔ مگر حقیقت میں ان کا کلام صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث بہت سی اسناد سے ثابت ہے جن میں سے بعض اسناد تو اس درجے کی صحیح وسالم ہیں کہ اس میں کسی کلام کی گنجائش ہی نہیں۔ بہر حال اس حدیث سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے۔ کہ مقتدی کو قرأت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ تو سورت فاتحہ کی اور نہ کسی اور سورت کی۔ اس موقع پر یہ احتمال بھی پیدا نہیں کیا جاسکتا کہ شاید اس حدیث کا تعلق بلند آواز کی نماز سے ہو کیونکہ یہ بات بھی صحیح طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد عصر کی نماز کے وقت تھا۔ جو آہستہ آواز کی نماز ہے اور جب آہستہ آواز کی نماز میں یہ حکم ہے تو بلند آواز کی نماز میں تو بدرجہ اولی یہی حکم ہوگا۔
Top