مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 820
وَعَنْ عَبْدِا ﷲِ بْنِ اَبِیْ اَوْ فٰی قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَال اِنَّی لَا اَسْتَطِیْعُ اَنْ اَخُذَ مِنَّالقُرْاٰنِ شَیْئًا فَعَلِّمْنِی مَا یُحْزِئُنِی قَالَ قُلْ سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرْ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ قَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲ ھٰذَا لِلّٰہِ فَمَاذَا الِی قَالَ قُلْ اَللّٰھُمَّ رْحَمْنِی وَعَافِنِیْ وَاھْدِنِی وَارْزُقْنِی فَقَالَ ھٰکَذَا بَیَدَیْہِ وَقَبَضَھُمَا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَمَّا ھَذَا فَقَدْ مَلَا یَدَیْہِ مِنَ الْخَیْرِرَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَانْتَھَتْ رِوَایَۃُ النَّسَائِیِّ عِنْدَ قَوْلِہٖ اِلَّا بِاﷲِ۔
جو آدمی قراءت پر قادر نہ ہو وہ کیا پڑھے
اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی آقائے نامدار ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں (فوری طور پر) قرآن میں سے کچھ یاد کرلینے پر قادر نہیں ہوسکتا اس لئے آپ ﷺ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئے جو میرے لئے کافی ہو آپ ﷺ نے فرمایا تم یہ پڑھ لیا کرو سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر و لا حول ولا قوۃ الا باللہ یعنی اللہ پاک ہے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ بہت بڑا ہے، گناہوں سے بچنے کی توفیق اور عبادت کرنے کی طاقت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ تو اللہ کے لئے ہے میرے لئے کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اپنے لئے) تم یہ پڑھ لیا کرو۔ اللھم ارحمنی وعافنی واھدنی وارزقنی یعنی اے پروردگار مجھ پر رحم فرما، مجھ کو عافیت سے رکھ! مجھے ھدایت عطا کر! اور مجھے رزق دے پھر اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کیا اور ان کو بند کیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھ نیکی سے بھر لئے۔ (سنن نسائی کی روایت الا باللہ تک ختم ہوگئی ہے)۔

تشریح
حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جب سائل نے قرأت کا کوئی بدل دریافت کیا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے بتادیا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا اور ان کو بند کیا اور اپنے اس عمل سے گویا اس بات کا اقرار کیا کہ آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے میں نے اسے سچ و برحق جانا اور اسے یقین و اعتماد کے ساتھ اپنے دل و دماغ میں جا گزین کرلیا ہے جس طرح کہ جب کسی آدمی کو کوئی قیمتی و اعلی چیز ہاتھ لگتی ہے تو وہ اس چیز کو اپنی مٹھی میں بند کرلیتا ہے۔ مصنف مشکوٰۃ (علیہ الرحمتہ) نے اس حدیث کو باب القرائۃ میں نقل کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائل قرآن میں سے اتنا بھی یاد نہ کرسکتا تھا جس سے اس کی نماز درست ہوجاتی۔ مگر یہاں ایک اشکال واقع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بات کچھ بعید ہی معلوم ہوتی ہے کہ ایک آدمی جو عربی زبان سے پوری طرح واقف تھا کیا وہ اتنا بھی یاد نہ کرسکتا تھا کہ وہ نماز میں پڑھ سکے۔ پھر یہ کہ جتنے کلمات اسے بتائے گئے ہیں۔ اگر وہ ان کلمات کی بقدر بھی قرآن میں سے کچھ یاد کرلیتا تو اس کی نماز کی ادائیگی کے لئے کافی تھا۔ اس اشکال کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ سائل اسی وقت مسلمان ہوا تھا کہ نماز کا وقت آگیا اور چونکہ وہ فوری طور پر اس قادر نہیں ہوسکتا تھا کہ قرآن میں سے کچھ یاد کرسکے اس لئے آسانی و سہولت کے پیش نظر یہ کلمات سکھا دئیے گئے۔ یا پھر اس حدیث کو ابتدائے اسلام پر محمول کیا جائے گا کہ ان دونوں احکام و مسائل کے نفاذ کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ آسانی و سہولت کو پیش نظر رکھا گیا تھا یہ توجیہ زیادہ اولیٰ ہے۔
Top